William Wali by Noor Rajput - Episode 1
ولیم_ولی"کسی کو اپنا مان لینے سے وہ اپنا نہیں ہو جاتا فجر۔۔!!“اللہ کی محبت کے نام۔۔۔۔ یہ ایسا ناول ہے جس کا خیال اچانک آیا جب اللہ کی محبت کا عجیب سا احساس دل میں ہوا۔ کبھی کبھی کچھ اچانک ہوتا ہے۔ میں نے سوچا تھا اب ایسا کوئی ناول نہیں لکھوں گی۔ پر جو اللہ کو منظور۔ شاید مجھ سے یہ سب لکھوایا جاتا ہے۔ یہ ماثیل کی طرح پیچیدہ ناول نہیں ہے بلکہ میں نے کوشش کی ہے اسے آسان لکھا جائے۔ آسان اور خوبصورت۔ باقی سب تو ناول پڑھ کر پتا چلے گا کہ ولیم کون ہے اور ولی کون ہے۔(نورراجپوت)
ولیم_ولی (اللہ کی محبت کے نام)
قسط_نمبر_1
نور_راجپوت
باب اول: فجر
اللّہ اکبر ، اللّہ اکبر
اللّہ سب سے بڑا ہے! اللّہ سب سے بڑا ہے!
شہر کے تنگ گلیوں والے پرانے محلے میں، گہرے ہوتے کُہرے کے درمیان مغرب کی پرفسوں آواز گونجی۔ سردیوں کی آمد تھی۔ مغرب کے وقت اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا۔ اونچی نیچی تنگ گلیوں میں کھیلتے بچے اب گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اسی محلے کی ایک تنگ گلی میں داخل ہوں تو آ خر میں ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ جس کا دروازہ لوہے کا تھا جس کی حالت خستہ تھی۔ دروازے سے اندر داخل ہوں تو سامنے ہی چھوٹا سا صحن تھا جس کے فرش کا سیمنٹ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ دائیں جانب چھوٹی سی کیاری بنی تھی جس میں چند پودے لگے تھے اور بائیں جانب پانی کی موٹر اور ساتھ ہی نل لگا تھا اور کپڑے دھونے کی جگہ بنی تھی۔ اس کے ساتھ ہی باتھروم تھا۔ سامنے دیکھیں تو برآمدہ نظر آتا تھا اور اس سے ملحقہ دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ برآمدے میں ایک جانب باورچی خانہ تھا تو دوسری جانب ایک اسٹور روم تھا۔ گھر کے ٹوٹے پھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھی وہ لگاتار ایک ہی جملہ دہرا رہی تھی۔
”اماں ارسل میرا ہے، ارسل میرا ہے اماں۔۔۔“
”چپ کر جا فجر، خدا کا خوف کھا، اذانیں ہو رہی ہیں۔۔“ اماں کی غصے بھری آواز ابھری۔ وہ باہر لگے نل پر وضو کرنے گئی تھی۔
” تو بھی خوف کھایا کر امّاں۔ تجھے خوف کیوں نہیں آتا یہ کہتے کہ ارسل میرا نہیں ہے؟؟تجھے خوف کیوں نہیں آتا میرا دل دکھاتے؟؟“
وہ پوری قوت سے چلائی۔ چہرے کے نقوش بگڑ گئے۔ باورچی خانے میں بچھے چھوٹے سے دسترخوان پر بیٹھی فجر معراج کا دل کھانے سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ پہلے ہی کھانے میں دال دیکھ کر اس کی بھوک آدھی اڑ گئی تھی اور اب آدھی امّاں کی باتوں نے اُڑا دی تھی۔ اس نے بےدلی سے پلیٹ کھِسکادی اور اب فون نکال کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ اگلے ہی پل فون کی اسکرین پر ایک خوبصورت سی گھڑی جگمگ کر رہی تھی۔ گھڑی کی قیمت دس ہزار تھی۔
”اتنے پیسے کہاں سے لاؤں؟؟“
کل ارسل کا برتھ ڈے تھا اور فجر اُسے ہر قیمت پر یہ گھڑ گفٹ کرنا چاہتی تھی۔ ارسل برہان گردیزی، فجر معراج کی پوری دنیا تھا۔ پچھلے کئی مہینوں سے پیسے جوڑنے کے بعد بھی وہ اتنے اکٹھے نہیں کر پائی تھی کہ اسے اپنی پسند کے سارے تحفے دے سکے۔ غصے کی جگہ اب اُداسی نے لے لی۔
کئی لمحے وہ یونہی بیٹھی رہی۔ اذان کب ختم ہوئی کچھ پتا نہ چلا۔ چونکیتب، جب امّاں اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔
”کھانا پھر چھوڑ دیا؟؟ کیوں ضائع کرتی ہے رزق فجر؟؟“
پلیٹ میں رکھی روٹی اور کٹوری میں بچی دال کو دیکھ کر وہ افسوس سے بولی۔
”یہاں میری زندگی ضائع ہورہی ہے امّاں اس کی پرواہ نہیں ہے تجھے؟؟“
وہ مارے ضبط سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنکھوں میں نمی تھی۔ غصہ تھا، بےبسی تھی، پر امّاں کو دال روٹی کی پڑی تھی۔
”چل جا نماز پڑھ۔۔“امّاں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے کہا اور کونے میں رکھی انگیٹھی کے پاس کھڑے ہو کر کوئلوں کی گرمائش لی۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کے بعد ان کی حالت خراب ہورہی تھی۔ باورچی خانے میں کافی گرمائش تھی جبکہ باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور پانی تو حد سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔
”پڑھ لوں گی پہلے مجھے سات ہزار چاہئیں“ لہجے کو حد درجہ نارمل بناتے اُس نے مطالبہ کیا۔
”سات ہزار؟؟“ اماں کو ہول پڑا انہوں نے بےاختیار سینے پر ہاتھ رکھا۔ ”کس لیے چاہئیں تجھے اتنے پیسے؟؟“
”مجھے ضرورت ہے اماں ورنہ میں تجھ سے کبھی نہ مانگتی۔“ وہ بضد تھی جانتی تھی اگر وجہ بتا دیتی تو اماں کبھی نہ دیتی۔ دینے والی تو وہ ابھی بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی ایک موہوم سی اُمید تھی۔ شاید اُنکا دل نرم پڑ جائے۔ شاید انہیں اپنی بیٹی پر ترس آجائے۔
”ایسی کیا ضرورت آگئی تجھے راتوں رات؟؟ یونیورسٹی کی فیس تو بھر دی نا۔۔؟؟“ اماں نے دوپٹے کو حجاب کی صورت میں اچھے سے لپٹتے پوچھا۔ وہ اب نماز پڑھنے والی تھی۔ اُنکی بات سن کر فجر کا دل کلس کر رہ گیا۔
”ارسل کا برتھ ڈے ہے کل مجھے اس کے لیے گفٹ خریدنا ہے۔“ سپاٹ لہجے میں کہتی وہ وہیں جمی کھڑی رہی۔ اس کی بات سن کر اماں نے ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے لعنت بھیجی ہو۔
اور پھر بنا کچھ کہے اس کے پاس سے گزر کے باہر نکل گئی۔
”اماں پیسے دے دے مجھے۔“ وہ انکے پیچھے لپکی۔ جبکہ اماں برآمدے میں جائے نماز بچھا کر اس پر کھڑی ہوچکی تھی۔
”اماں۔۔۔“ نیت باندھتی اماں کو اس نے پھر سے پکارہ۔ ضبط کے مارے آنکھوں میں آنسوں بھر گئے۔ وہ مٹھیاں بھینچے کھڑی تھی۔ جبکہ اماں نیت باندھ چکی تھی۔ وہ اب نماز پڑھ رہی تھی۔
”ایسے اولاد کو تڑپا کر نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔۔۔“ وہ غصے سے چیختی اپنے چھوٹے سے کمرے کی جانب بڑھی اور دروازے پوری قوت سے دے مارا۔ اب وہ بیڈ پر اوندھے منہ پڑی رو رہی تھی۔ کمرے میں ایک چھوٹے سے سنگل بیڈ کے علاوہ ایک پرانی سی الماری تھی اور ایک خستہ سی کرسی اور میز رکھی تھی۔ اور کوئی سامان نہیں تھا۔
”فجر نماز پڑھ لے۔۔۔“ اماں نے فرض رکعات پڑھنے کے بعد پھر سے اسے پکارہ اور فجر کے رگ و پے میں نفرت کی لہر پھیل گئی۔ لیکن وہ بولی کچھ نہیں۔ جبکہ باہر اماں اب بیٹھے بیٹھے باقی کی رکعات پڑھ رہی تھی جبکہ ساتھ والے کمرے سے ابا کے کھانسنے کی آواز بار بار آرہی تھی۔ انہیں ٹی بی تھا اور سردیوں میں یہ مرض بڑھ جاتا تھا۔
فجر اٹھ جا اپنے باپ کو دیکھ لے۔“ اماں کی پھر سے آواز ابھری لیکن فجر نے تکیہ اٹھا کر اپنے کانوں پر رکھ لیا۔ اس وقت وہ جس تکلیف میں تھی کوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی زندگی عذاب بنانے والے اس کے اپنے تھے۔ اس کے ماں باپ جن کی کنجوسی کی عادت نے اسے ہر چیز سے ترسارکھا تھا۔ کم از اکم فجر کو تو یہی لگتا تھا۔
باہر اندھیرا آہستہ آہستہ گہرا ہوتا گیا۔ اماں نے نماز پڑھ کر اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
”فجر۔۔۔۔۔چل اٹھ جا چائے بنا لے۔ مجھے بھی دینا۔ اٹھ جا برتن بھی دھونے ہیں۔“ اماں کی آواز ابھری اور فجر کا دل شدت سے چاہا کہ وہ بہری ہوجائے یا پھر اماں گونگی ہوجائے کیونکہ جتنی دیر وہ گھر ہوتی تھی فجر فجر کی پکار اُسے سکون نہیں لینے دیتی تھی۔
”نہیں پینا مجھے زہر۔۔“ وہ روتے ہوئے بڑبڑائی۔ تصور میں بار بار ارسل کا خوبصورت چہرہ ابھر رہا تھا۔ مہینوں پیسے جمع کرکے ، اپنی ضرورتیں کاٹ کر اس نے ارسل کے لیے دو تین گفٹ لیے تھے اور بس گھڑی رہ گئی تھی لیکن اس کے مٹی کے گلّے میں صرف تین ہزار تھا جو اُس نے گن گن کر اب تک ڈالا تھا پر گھڑی دس ہزار کی تھی۔ اور اماں اسے ایک روپیہ دینے کو تیار نہیں تھی۔
اماں کچھ دیر دروازے پر کھڑی رہی پھر چلی گئی۔ اب وہ اپنے کمرے میں تھی۔
”کیوں رُلاتی ہے اسے فجر کی اماں؟؟ دے دیا کر جو مانگتی ہے جو ہے اُسی کا ہے۔۔“ ابا نے کھانسی پر قابو پاتے بمشکل کہا۔ کھانس کھانس کر انکا وجود درد کرنے لگا تھا۔
”میرے پاس کونسا قارون کا خزانہ ہے؟ جو تھوڑا بہت جوڑ رکھا ہے وہ اس کی شادی کے لیے ہے فضول خرچی کے لیے کہاں سے لاؤں؟؟“ اماں نے تڑخ کر جواب دیا۔ آواز فجر تک گئی تھی۔
وہ جھٹکے سے اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر نکلی پھر ساتھ والے کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھولا۔ بلب کی مدھم سی روشنی میں اس کے اماں ابا بستر میں دبکے پڑے تھے۔ وہ دونوں کافی ضعیف تھے بلکہ غربت اور مشکل حالات نے دونوں کو ایسا بنا دیا تھا۔
”تو کس نے کہا تھا مجھے بڑھاپے میں پیدا کرنے کو؟؟ جب پہلی بیٹی بیس سال کی عمر میں مرگئی تھی تو مجھے شادی کے بائیس سال بعد پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟ یہ ترسی ہوئی زندگی دینے کے لیے پیدا کیا تھا؟؟“ وہ تنفر سے بولی۔ چہرہ لال بھبھوکا تھا۔
معراج الدین اور سکینہ کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی۔ اللہ نے ایک ہی بیٹی دی تھی اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بیٹی کا نام منار رکھا گیا جو بیس سال کی عمر میں اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی۔ یوں دونوں میاں بیوی اکیلے رہ گئے۔پھر اللہ نے کرم کیا تو منار کی موت کے ایک سال بعد اللہ نے انہیں ایک اور بیٹی سے نوازہ۔ لوگوں نے مزاق اڑایا کہ اس عمر میں اولاد پیدا کرکے اُسے کیسے پالیں گے لیکن وہ دونوں خوش تھے۔
دوسری بیٹی کا نام فجر رکھا گیا تھا اور آج بائیس سال بعد فجر معراج اپنے ماں باپ کو اپنے پیدا کرنے کا طعنہ دے رہی تھی کیونکہ وہ اسے کچھ نہیں دے پائے تھے۔
”فجر جا چلی جا زبان نہ چلایا کر۔۔“ اماں نے ڈپٹا۔
”تو تو یہی چاہتی ہے اماں کہ میں مرجاؤں۔ تو مجھے زندہ دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔“ وہ تن فن کرتی کمرے سے نکل گئی۔ سینے میں الاؤ دہک رہا تھا۔ ایک چھوٹی سی اُمید تھی جس پر اماں نے پانی پھیر دیا تھا۔ اب وہ باورچی خانے میں برتنوں کو زور زور سے پٹخ رہی تھی۔
”کہتی ہوں کل بلقیس سے کہ جلدی اپنے بیٹے کا رشتہ لائے میں اس لڑکی کو اِس کے گھر کا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔“
کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر لائی تو اماں کی آواز نے اس کے قدموں کو جکڑ لیا اور اس وقت فجر کا شدت سے دل چاہا کہ وہ چائے میں زہر گھول کر اپنی اماں کو پلادے جو اس کی خوشیوں کی دشمن بن چکی تھی۔
”فجر کی مرضی کے بنا کچھ نہ کرنا۔۔“ ابا دھیمی آواز میں بولے۔
”ابا۔۔۔“ اس نے باپ کو پکارہ۔
”اماں سے میری خوشی برداشت نہیں ہوتی میں انہیں ہزار بار بتا چکی ہوں میں ارسل سے شادی کروں گی لیکن یہ پھر اپنے ان پڑھ جاہل بھانجے سے باندھنا چاہتی ہے مجھے۔۔“ اس نے چائے کی ٹرے لا کر اماں اور ابا کے بستر کے درمیان رکھے چھوٹے سے میز پر پٹخی۔ چائے اچھل کر ٹرے میں گر گئی۔
”وہ تجھ سے بیاہ نہیں کرے گا۔۔۔“ وہ پلٹی۔ جب اماں کے الفاظ نے اس کے دل پر ہاتھ ڈالا۔ اس کا دل ہول اٹھا۔
”اماں ایسی باتیں نہ کیا کر۔۔۔۔“ وہ تھوک نگلتے بولی۔ یہ خیال بھی روح فرساں تھا اور اماں کتنی آسانی سے بول دیتی تھی۔
”کنول کا پھول، پھول ہو کر بھی کیچڑ میں ہی رہ جاتا ہے۔“ اماں نے پھر طنز کیا اور فجر کی آنکھیں پھر سے بھرنا شروع ہوئیں۔
”اماں مجھے بددعائیں نہ دیا کر تجھے اللہ کا واسطہ! میری زندگی ارسل ہے وہ نہیں تو فجر معراج بھی نہیں۔۔“ وہ ضبط نہیں رکھ پائی اور رودی۔
”بےحیا ماں باپ کے سامنے غیر مرد کے لیے ایسی باتیں کرتے تجھے حیا نہیں آتی۔۔؟؟ جا اپنا کام کر، دفع ہوجا ادھر سے۔“ اماں نے پھر گھرکا اور فجر جبڑے بھینچے کمرے سے نکل آئی۔ اس کا دل اب رو رہا تھا۔
”پیسے نہیں دینے تو نہ دے لیکن میری محبت کو بددعائیں کیوں دیتی ہے اماں۔۔۔؟؟“ وہ ہولے ہولے بڑبڑاتے باورچی خانہ صاف کر رہی تھی اور آنکھوں سے آنسوں مسلسل جاری تھے۔
✿••✿••✿••✿
”فجر۔۔۔فجر اٹھ جا نماز پڑھ لے۔“ وہ پرسکون نیند سو رہی تھی جب اماں کی آواز ہتھوڑے کی مانند اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ فجر کا وقت ہوگیا تھا اور اماں نہ صرف اسے آوازیں دے رہی تھی بلکہ کمرے کا دروازہ بھی بجا رہی تھی۔
”فجر اٹھ جا۔۔۔۔فجر۔۔۔۔“ پتا نہیں انہیں فجر کا نام پسند تھا یا کچھ اور جو وہ ہر وقت اُسے پکارتی رہتی تھی۔ نرم گرم بستر میں دبکی فجر نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ پہلا خیال ارسل کا آیا اور اس کے لبوں پر مسکان بکھر گئی۔
کتنا خراب موڈ تھا رات اس کا وہ روتی رہی تھی لیکن جیسے ہی ارسل سے بات ہوئی ساری اداسی دور جا سوئی تھی۔ اس نے ٹھیک بارہ بجے ارسل کو وش کیا تھا اور دوسری جانب وہ بھی اس کا منتظر تھا۔
”تم میرا سکون ہو فجر اور میں تمہارے بنا اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔“ اور فجر کو لگا تھا جیسے اماں کے دیے سارے زخم بھرگئے ہوں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ چہرہ دمک رہا تھا۔ آج ارسل سے ملنا تھا آج اس کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا تھا۔ بہت سارا کام تھا وہ تیزی سے بستر سے نکلی۔ نیند دور جا سوئی۔
سب سے پہلے اس نے بال باندھے اور پھر الماری کھول کر اپنا مٹی کا گلّا نکالا۔ جس میں اس نے تین ہزار جمع کر رکھے تھے۔ اس نے وہ گلّا زمین پر دے مارا۔ کھٹاک کی آواز ابھری اور اماں کی پھٹکار بھی۔
”فجر۔۔۔۔ اللہ تجھے غارت کرے کیا توڑ دیا صبح صبح؟؟“ لیکن فجر کو بھی پرواہ نہیں تھی۔ کم از کم آج وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کچھ دیر وہ زمین پر بیٹھی پیسے اٹھا اٹھا کر گن رہی تھی جانتی تھی اچھے سے جانتی تھی تین ہزار ہی تھے لیکن پھر بھی گنتی کر رہی تھی جیسے گلے میں پڑے پڑے ڈبل ہوگئے ہوں۔ پورے تین ہزار ہی تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پیسے بیگ میں رکھ کر دوپٹہ لیتی کمرے سے باہر نکل آئی۔ برآمدے میں لگے پردے سردی کی شدت کو نہیں روک پائے تھے۔ ٹھنڈی ہوا اس کی ہڈیوں تک گھس گئی۔باورچی خانے سے کھٹ پٹ کی آواز آرہی تھی۔ اور دور دراز سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔ اماں کوئلوں کی انگیٹھی جلانے کی کوشش میں تھی۔
”آجا فجر آگ جلا لے۔ مجھ سے پھونکیں نہیں ماری جاتیں۔ پانی بہت ٹھنڈا ہے گرم پانی سے وضو کرلیں گے۔“ اماں نے اسے دیکھتے ہی کہا اور فجر کے دل پر اوس سی پڑگئی۔
”اچھی بھلی گیس لگی تھی اماں بلاوجہ اتروا دی تو نے۔ بتا بھلا اس دور میں کوئلے کون جلاتا ہے۔“
وہ آج خوش خوش رہنا چاہتی تھی لیکن شاید خوش ہونا قسمت میں نہیں تھا۔
”ساتھ والی رکعیا آدھا بل مانگ رہی تھی لو بھلا ہم کدھر سے لائیں اتنے پیسے؟؟ تین لوگ ہیں ہم کبھی کبھی چولہا جلتا تھا لیکن لوگوں میں خوف خدا نہیں رہا۔۔“ اماں بڑبڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ فجر نے پہلے اپنے چمکتے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر کوئلوں کو۔۔۔۔اور پھر اس نے افسردہ سی آہ بھری۔ ٹھیک کہا تھا اما نے کنول کا پھول کیچڑ کی نذر ہی ہوتا ہے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
فجر کی نماز کے لیے وہ کمرے میں گھسی تو پھر آٹھ بجے تک باہر نہیں نکلی۔ اماں اسے آوازیں دے دے کر تھک گئی۔
”فجر آجا باہر ناشتہ کرلے۔۔ فجر۔۔۔؟؟“
لیکن فجر نے نہ کوئی جواب دیا نہ وہ باہر نکلی۔ فی الوقت اس کا دال کے ساتھ گھی والی روٹی کھانے کا کوئی موڈ نہیں تھا اور وہ خوش اتنی تھی کہ موڈ خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔
”فجر۔۔نافرمان۔۔کبھی ماں کی پکار بھی سن لیا کر۔۔“
ٹھک کی آواز سے کمرہ کھلا اور ہاتھ میں تین چار شاپنگ بیگ تھامے وہ کمرے سے باہر نکلی۔ اب وہ اپنی گرم چادر کو درست کر رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اماں کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ خوشبوؤں میں رچی بسی فجر برآمدے میں کھڑی تھی۔سرخ لباس پہنے وہ خستہ ہال برآمدے میں کھڑی کیچڑ میں کھلا گلاب لگ رہی تھی۔
”یہ سب کیا ہے؟؟“ اتنے سارے شاپنگ بیگز دیکھ کر اماں سکتے میں چلی گئی۔ وہ دروازہ کھلنے کی آواز پر فٹافٹ باورچی خانے سے باہر نکلی تاکہ فجر کی تیاری دیکھ سکے۔ بوڑھی آنکھوں کی بینائی کم ہوچکی تھی لیکن فجر کے معاملے میں وہ آنکھیں مائیکروسکوپ بن جاتی تھیں۔
”اماں تجھے نظر آرہا ہے نا تو پوچھ کیوں رہی ہے؟؟“ وہ کوفت سے بولی۔ شاپنگ بیگز کو برآمدے میں بچھے تختے پر رکھتی وہ اپنا شولڈر بیگ اٹھانے اندر گئی۔ اماں نے فٹافٹ آگے ہو کر سارے بیگ ٹٹول لیے اور اندر موجود قیمتی ڈبے دیکھ کر اماں کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”گھر دینے کے لیے تیرے پاس پیسے نہیں اور اس غیر مرد کے لیے تونے اتنا سب خرید لیا؟ اللہ کی مار تجھ پر فجر۔۔۔“ اماں برے دل سے بولی۔ چہرے پر غصہ ہی غصہ تھا۔
”اماں۔۔۔“ وہ کمرے سے نکلتی احتجاجاً چلائی اور پھر تیزی سے سارے بیگ جھپٹ لیے۔ وہ اس کے لیے قیمتی تھے کیونکہ وہ ارسل کے لیے تھے۔
„کبھی تو مجھے سکون کا سانس لینے دیا کر، کبھی تو کوئی جملہ بنا بددعا کے بولا کر۔۔“ فجر کا دل برا ہوا۔ ”اور یہ سب میری محنت کی کمائی ہے۔ تو نے پیسے نہیں دیے اور نہ یہ حرام کے ہیں۔ میں نے کمائے ہیں اور اِن پر میرا حق ہے۔۔“ وہ چادر درست کرتی تن فن کرتی برآمدے سے باہر نکلی اب وہ خارجی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ہیل کی ٹک ٹک گونج گئی۔ اماں نے ایک نظر اس کے نئے جوتے پر ڈالی۔ گلابی پاؤں سیاہ نازک سی سینڈل میں جگمگ کر رہے تھے۔
”کمائی یوں لٹانے کے لیے نہیں ہوتی اور جس کے لیے تو یہ سب کر ہی ہے وہ تجھے ایک دن آسمان سے زمین پر پٹخ دے گا ۔۔“
فجر کا دل کسی نے مٹھی میں پکڑ کر بھینچ دیا۔ اس کے قدم رک گئے اور چہرہ سرخ پڑ گیا۔ اس نے شکایتی نظروں سے پلٹ کر اماں کو دیکھا۔جبڑے بھنچ گئے۔ آنکھوں میں آنسوں تھے پر اماں کو کیا پرواہ؟؟ وہ نخوت چہرے پر سجائے کھڑی تھی۔ نرم گرم سی نکلتی دھوپ میں فجر کا چہرہ دہک رہا تھا۔ وہ خود کو کچھ غلط کہنے سے روک رہی تھی۔ برآمدے میں اماں پرانی سی گرم چادر خود پر لپیٹے ایستادہ تھی۔ دھوپ نکل آئی تھی لیکن ہوا میں ٹھنڈک تھی۔
”دعا کر اماں فجر مر جائے، فجر آج واپس ہی نہ آئے۔۔“ اس نے آخری نظر اماں پر ڈالی اور پھر تیزی سے ٹوٹا پھوٹا دروازہ پار کر گئی۔ ہیل کی آواز دور ہوتی گئی۔ جھریوں والا چہرہ لیے اماں کھڑی رہ گئی۔ اسے ذرا ملال نہیں تھا۔
اندر کمرے میں بستر پر لیٹے ابا کو کھانسی کا دورہ پڑا۔ سامنے دروازہ کے قریب ہی وہ کھڑی تھی۔ منار معراج۔۔!!
وہ ہنس رہی تھی۔
”روک ابا۔۔۔اب فجر کو روک کر دکھا۔۔۔“
وہ معراج الدین سے مخاطب تھی جبکہ اسے دیکھتے ہی ابا کو کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ ان سے سانس لینا مشکل ہوگیا۔
✿••✿••✿••✿
آج اس نے لوکل چنگچی کی بجائے آٹو لیا۔ صبح کے نو بج رہے تھے۔ آج یونیورسٹی میں ایک ہی لیکچر تھا۔ لیکچر کے بعد وہ مارکیٹ جانے والی تھی تاکہ وہ گھڑی خرید سکے اور اس وقت آٹو میں بیٹھی وہ پورے دل سے مسکرا رہی تھی۔ ارسل کے لیے، لیے گئے گفٹس کو اس نے متاع جان کی طرح تھام رکھا تھا اور لبوں پر خوبصورت مسکان تھی۔
فجر معراج وہ لڑکی تھی جو آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں سروائیو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی فیملی میں اماں ابا کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ نہ چچا نہ تایا۔ کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا خود کو اسی گھر میں پایا تھا۔ ابا کی پہلے دکان تھی جو اب کرائے پر دے دی تھی۔ اسی کے پیسوں سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ جبکہ فجر خود ذہین لڑکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیروں خواب تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔کچھ بننا چاہتی تھی۔ میٹرک تک وہ سرکاری سکول میں پڑھی اور پھر کالج اسکالر شپ پر جاتی رہی۔ یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے اس نے ایک کال سینٹر میں جاب شروع کرلی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی کمیونیکیشن اچھی ہوگئی اور وہ جاب کو لے کر سنجیدہ تھی اس لیے اسکی سیلری کمیشن کے ساتھ اچھی بن جاتی تھی۔ وہ کوشش کرکے گھر بھی راشن ڈال دیتی ورنہ زیادہ تر خود پر خرچ کرتی تھی۔نفیس کپڑے، مہنگے جوتے اور قیمتی بیگ اسے سب پسند تھے۔
وہ کسی سے کچھ نہیں لیتی تھی جو تھا اپنی محنت سے تھا۔ یونیورسٹی میں اگر کوئی جان لیتا کہ مغرور فجر معراج کس محلے میں رہتی تھی اور اس کے گھر کے حالات کیسے تھے تو یقیناً تماشا بنتا پر فجر نے ایسا کوئی دوست نہیں بنایا جو گھر تک آئے اِس لیے وہ کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔ یونیورسٹی کا آخری سیمسٹر تھا۔ یونیورسٹی کے ان چار سالوں میں جانے کتنے ہاتھ اس کی جانب بڑھے۔ کتنے لوگ اس پر دل ہارے پر فجر معراج نے کسی کو گھاس نہیں ڈالی۔ آخر اس کا دل آیا بھی تو کس پر۔ ارسل برہان پر۔ ارسل برہان گردیزی جو چاند جیسا تھا۔ وہ اسے کمپنی کی ایک کانفرنس میں ملا تھا۔ رکھ رکھاؤ والا ارسل اسے پہلی ہی نظر میں پسند آگیا اور پھر ان کا رابطہ سوشل میڈیا پر ہوا۔ جانے کیوں وہ اس کے دماغ سے چپک گیا تھا وہ چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا پائی تھی۔
پسندیدگی آہستہ آہستہ کب محبت میں بدلی فجر کو پتا ہی نہیں چلا۔ اب ارسل اس کا سب کچھ تھا۔ وہ نہیں تھا تو کچھ نہیں تھا۔
ڈیپارٹمنٹ کی راہداری میں، سرخ لباس پہنے، فجر معراج کو آگے بڑھتے جانے کتنے لوگوں نے دیکھا۔ کتنی ستائش بھری نگاہیں تھیں، کتنی حسرت بھری، وہ خود پر اٹھنے والی ہر نظر پہنچانتی تھی لیکن اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اگر کسی پر ٹھہر گئی تھی تو وہ ارسل برہان تھا۔ وہ اس کا مان تھا وہ اس کا غرور تھا وہ اس کا سب کچھ تھا۔
وہ اس کے بارے میں سب جانتا تھا اور فجر کا فنانشل اسٹیٹس جان کر بھی اس کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی اور فجر نے اُسے اُسکے فنانشل اسٹیٹس کو دیکھ کر دل نہیں دیا تھا وہ گردیزی نہ بھی ہوتا تو فجر کے لیے وہی سب ہوتا جو اب تھا۔
”جانے کس کی لاٹری نکلے گی۔ ہمارے ہاتھ تو یہ بلبل آئی نہیں۔۔“ لڑکوں کے گروپ میں کسی نےسرگوشی کی۔
“وہ منگنی شدہ ہے۔“ کوئی دوسرا بولا۔ وہ خود کو انگیجڈ کہتی تھی۔ وہ ارسل سے کمیٹڈ تھی اور حقیقتاً نہیں چاہتی تھی کوئی اس کی جانب بڑھے اس لیے سب جانتے تھے فجر معراج انگیجڈ تھی۔
یونیورسٹی میں لیکچر کے بعد اس نے اپنے پراجیکٹ پر کام کیا پھر ایک ریسٹورینٹ فون کرکے برتھ ڈے بکنگ کروائی اور پھر مارکیٹ کے لیے نکل پڑی۔ تین بجے ارسل اسے پک کرنے والا تھا اور اس سے پہلے اسے سب کچھ ریڈی رکھنا تھا۔ اب وہ گھڑیوں والی ایک چمچماتی دکان میں کھڑی تھی۔
اس نے اس مہینے کی پوری سیلری ارسل پر لگادی تھی۔ اس نے پتا نہیں کیا کچھ کیا تھا۔ ارسل کے ساتھ اس کا یہ دوسرا برتھ ڈے تھا۔ وہ سے ہر صورت اسپیشل بنانا چاہتی تھی۔
”کیا ایسا نہیں ہو سکتا میں آپ کو آدھی پیمنٹ کچھ دن بعد کردوں؟؟“ اس نے دکاندار سے پوچھا۔
”نہیں میڈم ایسا تو پاسیبل نہیں۔ ہاں آپ آدھی پیمنٹ اب کردیں اور رسید لے جائیں باقی پیمنٹ جب ہوگی آکر گھڑی لے جائیے گا۔۔ “ دکاندار نے مسئلے کا حل پیش کیا۔ فجر نے بےساختہ لب کچلے۔
”نہیں مجھے گھڑی آج ہی چاہیے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”آپ کا بجٹ کیا ہے؟؟“
”ابھی میرے پاس تین ہزار ہے۔۔“ اسے بتاتے ہوئے بھی شرمندگی ہوئی۔ دکاندار کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”میرے پاس اسی ڈیزائن میں
Versace
کی سب سے سستی کاپی ہے جو تین ساڑھے تین ہزار تک مل جائے گی۔۔“ دکاندار نے حل پیش کیا۔ فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
دکاندار نے اسے گھڑی دکھائی وہ اسے پسند آگئی۔
”ٹھیک ہے آپ اسے پیک کردیں۔۔“ آنکھیں اب جگمگ کررہی تھیں۔ وہ گھڑی پیک کروارہی تھی جب اس کا فون تھرتھرایا۔ ارسل کا فون تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ چہرے پر سارے رنگ پھیل گئے۔
”السلام علیکم!“ اس نے فون ریسیو کرتے کان سے لگایا۔
”وعلیکم السلام! کہاں ہو۔۔۔؟؟“ ارسل کی آواز ابھری۔
”میں مارکیٹ ہوں۔ آپ کدھر ہیں؟؟“ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بتایا۔
”میں آرہا ہوں۔ مجھے لوکیشن شیئر کردو۔۔۔“
دل پھول کر غبارہ ہوا۔ وہ اپنی اہم میٹنگ چھوڑ کر آرہا تھا۔ وہ فجر معراج کے لیے آرہا تھا۔۔۔۔ ہوا خوشبوؤں سے رچ بس گئی۔
”بھائی ذرا جلدی کریں۔۔“ لوکیشن شیئرکرکے اس نے دکاندار سے کہا۔ جس نے ایک گھڑی سمیت ایک خوبصورت سا بیگ اسے تھمایا۔
”شکریہ۔۔۔“ پیمنٹ کرتی وہ دکان سے باہر نکل آئی۔ اب اس کا رخ اس کی بیکری کی جانب تھا جو قریب ہی تھی اور جس کی لوکیشن اس نے شیئر کی تھی۔ پانچ منٹ اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔ اور پھر لمبی سی سیاہ گاڑی اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ارسل باہر نکلا اور اسے دیکھ کر فجر کے دل نے بیٹ مس کی۔
وہ اب اس سے بیگز لے کر گاڑی رکھ رہا تھا۔ اب وہ اس کے لیے دروازہ کھول رہا تھا۔وہ اندر بیٹھ چکی تھی۔ اب وہ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔
”ہیپی برتھڈے۔۔۔“ وہ دلکشی سے بولی اور اسی دلکشی سے وہ مسکرادیا۔ نک سک سا تیار ارسل برہان اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔
”سوری اگر میری وجہ سے ویٹ کرنا پڑا۔ بتاؤ اب کہاں چلیں۔۔۔“ نسبتاً ایک پرسکون سی جگہ پر گاڑی روکنے کے بعد وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔“ وہ مسکرایا تو وہ فجر بھی مسکرادی۔
”دیکھیں میں آپ کے لیے کچھ لائی ہوں۔۔“ وہ اب پیچھے رکھے بیگ اٹھا رہی تھی۔ اس کے لہجے میں شیرنی گھلی تھی۔ سب کو کاٹ کھانے والی فجر معراج کے لہجے میں ارسل کے لیے صرف محبت ہوتی تھی۔
”لگتا ہے ساری سیلری مجھ پر اڑادی ہے۔۔“ وہ اتنے بیگز کو دیکھتے بولا۔ ”یہ سب لانے کی کیا ضرورت تھی فجر۔ میرا گفٹ تم ہو۔۔“ اسے حقیقتاً برا لگا۔ اور اس کی بات سن کر فجر کا چہرہ گلنار ہوا۔
”یہ دیکھیں۔۔“ وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتی اب باکس اسے تھماتے بولی۔ وہ اب پوری توجہ سے ایک ایک باکس اوپن کر رہا تھا۔ پرفیوم تھا، کی چین تھی، کچھ میموریز باکس تھے۔ ایک بہت بڑا پورٹریٹ تھا جو اس نے اپنے فیورٹ آرٹسٹ سے بنوایا تھا اور اسے کیسے وہ سارا دن اٹھائے پھرتی رہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔ اب وہ گھڑی دیکھ رہا تھا۔
”اچھی لگی آپ کو؟؟“ اسے اشتیاق سے گھڑی کو دیکھتے وہ پوچھنے لگی۔
“بہت اچھی ہے۔۔“ وہ بشاشت سے مسکرایا۔
”آپ اسے پہنیں گے؟؟“ دھڑکتے دل سے پوچھا۔
”ابھی پہن لیتے ہیں۔۔۔“ سیاہ ڈریس شرٹ میں ملبوس ارسل برہان یہ کہتا کتنا اچھا لگا تھا۔ اب وہ اپنی کلائی میں بندھی گھڑی اتار رہا تھا۔ اور فجر ساکت سی اسے دیکھے گئی۔ اب وہ اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ پر رکھ چکا تھا۔ اب وہ فجر کی لائی گھڑی پہن رہا تھا۔
”دیکھو اچھی لگ رہی ہے نا۔۔“ وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”فجر۔۔۔“ اور اس کی ڈبڈبائی آنکھیں دیکھ کر وہ ساکت رہ گیا۔ ”رو کیوں رہی ہو پاگل۔۔۔؟؟“ فجر کے آنسوں اس کے دل پر گر رہے تھے اور فجر نے نفی میں سرہلایا۔
”ارسل تمہارا ہے فجر۔ یہ جان لو۔“ اس نے فجر کے آنسوں پونچھتے اس کا گال تھپتھپایا اور فجر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مجھے لگتا ہے میں اب نہیں جی پاؤں گی۔ آپ کے بنا تو بالکل نہیں۔۔“ وہ رودی۔
”یار میرے برتھڈے پر تم رو رہی ہو یہ ظلم نہ کرو۔۔“ اور وہ مسکرادی۔ ”مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اب بتاؤ کہاں جانا ہے؟؟“ اس کے بیچارگی سے کہنے پر فجر نے مسکرا کر ریستوران کا بتایا اور ارسل نے گاڑی آگے بڑھادی۔ اب گاڑی میں خاموشی تھی۔
”ارسل ایک بات بتائیں۔۔۔“ وہ اب اس کی گھڑی کو اٹھائے الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
”آپ کی یہ گھڑی کتنے کی ہے؟؟“ سرسری سا سوال تھا۔
”ہوگی اڑھائی تین لاکھ کی۔۔۔“ اور فجر کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔ اس شخص نے اپنی تین لاکھ کی گھڑی اتار کر اس کی دی تین ہزار کی گھڑی پہن لی تھی۔ دل سینے میں ہی رک گیا تھا۔
”بائے دا وے میری گھڑی اب یہ ہے جو میں نے پہن رکھی ہے۔۔“ وہ خوشدلی سے بولا تو فجر بس مسکرا کر رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
سرمئی شام دھیرے دھیرے پر پھیلانے لگی۔ ہوا تیز ہوئی تو دھند اتارنا شروع ہوگئی۔ باہر گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں اور بڑی سی گلاس وال کے پار وہ دونوں ایک خوبصورت
Ambience
والے ریستوران کے کپل ایریا میں بیٹھے تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی ارسل نے کیک کاٹا تھا اور اب کھانا سرو کیا جارہا تھا۔ اچانک گلاس ڈور اوپن ہوا اور ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ اس کا حلیہ وہاں بیٹھے سبھی لوگوں سے مختلف تھا۔ وہ سیاہ جوگرز پر شارٹ ٹراوذر پہنے ہوئے تھا جو گھٹنوں سے بمشکل نیچے آرہا تھا۔ سیاہ ٹی شرٹ پر سیاہ لیدر کی جیکٹ اور کندھے پر سیاہ بیگ تھا۔ سر پر سیاہ کیپ جمی تھی جس میں اسکا آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا اور کیپ کے اوپر سے کانوں پر ہیڈ فون جما تھا ہیڈ فون سے منسلک ایک لمبی وائر اس کے بیگ تک جارہی تھی۔ اس کے گلے میں کیمرہ لٹکا تھا جبکہ ہاتھ میں فون تھا۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ حلیہ اور نین نقش دونوں سے مقامی نہیں لگتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی فلور مینیجر اس کی جانب بڑھا اب وہ انگلش میں اسے کوئی بات کر رہا تھا۔
”You can check my Account...this is William Joseph"
وہ فلور مینیجر کو فون پر کچھ دکھا رہا تھا۔ پھر وہ ہنس دیا۔
"Thank You so Much"
فلور مینیجر چلا گیا۔ اب وہ اپنے کیمرہ میں ریستوران کی مختلف زاویوں سے لی گئی پکچرز کلک کر رہا تھا۔ اب وہ ویڈیو بنا رہا تھا اور پھر اس کیمرہ میں گلاس وال کے قریب بیٹھی سرخ لباس والی لڑکی نظر آئی۔ وہ ارسل کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔
"Beauty in Red"
اس نے کمینٹ کیا اور پھر کیمرے کا رخ موڑ لیا۔اسے انسانوں کو کیمرہ میں ریکارڈ کرنے کا شوق نہیں تھا۔ اب وہ دوسری جانب رکھی میز کرسیوں میں سے نسبتاً ایک پرسکون جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس نے کیمرہ اور اپنا فون میز پر رکھا اور پھر کندھے سے بیگ اتار کر اس میں سے کچھ نکالا۔ وہ ایک مشین تھی۔ سیاہ رنگ کی ٹیپ ریکارڈر جیسی ایک ڈیوائس جس میں ہیڈ فون کی وائر کنیکٹ تھی۔ اس نے بٹن دبایا اور اس مشین کو میز پر رکھ دیا۔ اب اس نے آنکھ بند کرکے کرسی سے پشت ٹکالی۔ ہیڈ فون سے اب اُسے عجیب قسم کی وائبریشنز سنائی دے رہی تھیں۔ ایسی آوازیں جو شاید ہی کبھی کسی نے سُنی ہوں۔
✿••✿••✿••✿
”کیا بات ہے آج بہت خوش ہو؟؟“ اس کے چہرے سے پھوٹتی چمک اور اس کی کھلکھلاتی ہنسی پر ارسل نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
”کچھ بتانا ہے آپ کو۔۔“ فجر پرجوش سی بولی۔ ارسل متوجہ ہوا۔ اس کا فون، والٹ اور گاڑی کی چابی میز پر ایک جانب رکھے تھے۔
”میں نے ایک اچھی کمپنی میں جاب کے لیے انٹرویو دیا تھا اور میری سلیکشن ہوگئی ہے۔انہوں نے اچھا آفر دی ہے۔“ وہ چہک رہی تھی۔ دنیا میں اگر کہیں جنت تھی تو فجر معراج کے لیے بس یہی تھی۔
”ارے واؤ! میری فجر تو تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔۔“ ارسل کی ایسی تعریف پر وہ جھینپ گئی۔ رخسار گلاب ہوئے۔ پلکیں لرز اٹھیں اور ارسل کے لیے یہ نظارہ بہت حسین تھا۔
”اور یونیورسٹی؟؟“ پاستہ کی پلیٹ میں کانٹا ہلاتے ارسل نے اگلا سوال کیا وہ کھانا کھا رہا تھا لیکن متوجہ اس کی طرف تھا جبکہ فجر کی تو بھوک اسے دیکھتے ہی مٹ جاتی تھی۔ اسے کچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔
”بس پراجیکٹ چل رہا ہے۔ کچھ ہی مہینے ہیں۔ اسکے بعد یونیورسٹی ختم۔۔“
”اور اماں بابا کیسے ہیں۔۔؟؟“ چمچ منہ تک لے جاتی فجر کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔ اس کا حلق تک کڑوا ہوا۔ اگر وہ بتادیتی کہ اُسکی اماں اُسکی محبت کو کتنی بد دعائیں دیتی تھی تو سامنے بیٹھے ارسل کا دل ٹوٹ جاتا۔
”وہ بھی ٹھیک ہیں۔۔“ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ چہرے کی شادابی ماند پڑ گئی۔
”ان کی باتوں کا غصہ مت کیا کرو۔۔“ وہ اب اسے سمجھا رہا تھا فجر خاموش رہی۔ ”اور میرے پاس بھی تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے۔۔“ ارسل کے پراسرار سے انداز پر فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اور ان سے کچھ فاصلے پر دوسری جانب بیٹھے شخص کو ویٹر نے مخاطب کیا۔
”سر یور کافی۔۔۔“ ویٹر اسے پکار رہا تھا جبکہ وہ ہیڈفون سے ابھرتی آواز میں کھویا تھا۔
”سر۔۔۔“ ویٹر نے کافی میز پر رکھتے پھر سے پکارہ۔ اس بار اس نے آنکھیں کھولیں۔
”او ایم سوری۔۔۔اینڈ تھینک یو۔“ وہ اب سیدھا ہو بیٹھا۔ ویٹر کافی رکھ کر چلا گیا۔ ریستوران برقی قمقموں سے سجا ہوا۔ دیواروں اور چھتوں سے لٹکتے برقی قمقمے وہاں کے پرسکون ماحول کو چار چاند لگا رہے تھے اور تبھی اس کی نظر سامنے اٹھی۔ وہ کپل ابھی تک وہیں بیٹھا تھا۔ لڑکے کی اس کی جانب پشت تھی۔ وہ اب ایک نازک سی مخملی ڈبیا میز پر رکھ رہا تھا۔ لڑکی نے بے ساختہ اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھے۔ اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پھیل گئیں۔
وہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ برقی قمقموں کی چمک زیادہ تھی یا اس لڑکی کے چہرے سے پھوٹنے والی روشنی۔ پھر وہ سر جھٹک کر رخ موڑ گیا۔
”او مائے گاڈ ارسل آپ کے پیرنٹس مان گئے؟؟“ وہ بے یقینی سے چمچماتی اس ڈائمنڈ کی رنگ کو دیکھتے بولی۔ اس نے کہا تھا جب وہ اپنے گھر والوں کو منا لے گا تو اس کے لیے رنگ لائے گا اور آج وہ لے آیا تھا۔
”پوری طرح سے تو نہیں لیکن وہ تم سے ملنے کو راضی ہوگئے ہیں۔۔“ وہ بھی اتنا ہی خوش تھا اور تبھی اس کا فون بج اٹھا۔
”بابا کی کال ہے۔۔“ اس نے ایکسکیوز کرتے فون اٹھایا۔
”جی بابا؟؟“ وہ ادب سے بولا۔ دوسری برف سے کچھ پوچھا گیا تھا جبکہ فجر ڈائمنڈ کی رنگ چھوڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔
”باہر ہوں۔۔“ اس نے جواب دیا۔ آگے سے پھر کچھ پوچھا گیا۔
”فجر کے ساتھ۔۔۔“ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
”جی میں کچھ دیر تک آتا ہوں۔۔“ فون بند ہوگیا اور ارسل نے اپنا اٹکا سانس بحال کیا۔ وہ اپنے باپ کی بہت عزت کرتا تھا بلکہ کسی حد تک ڈرتا بھی تھا پر وہ اپنی محبت کا مقدمہ بھی لڑ رہا تھا اور یہ مشکل کام تھا۔
”غصہ تو نہیں تھے وہ؟؟“ فجر نے دھڑکتے دل پر قابو پاتے پوچھا۔
ارسل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سیاہ گرم شال کو قدموں پر پھیلائے سیاہ بالوں کے گھیرے میں چمکتے چاند سے چہرے والی فجر معراج کئی متضاد کیفیات کا شکار تھی۔
”نہیں۔۔۔“ وہ مسکردایا۔
”یہ رنگ آپ مجھے انگیجمنٹ پر پہنائیے گا۔“ اس نے مخملی ڈبیا ارسل کی جانب کھسکادی۔ جسے ارسل نے کچھ سمجھتے اثبات میں سرہلایا۔
”اگر آپکے بابا اسٹیٹس پر کوئی بات کریں تو آپ انہیں بتا دیجیے گا کہ میں نے اسٹیٹس دیکھ کر آپ سے محبت نہیں کی اور میں مستقبل کی ایک بہت بڑی فیشن ڈیزائنر بننے والی ہوں اور میں تب تک ویٹ کر سکتی ہوں مجھے شادی کی جلدی نہیں ہے۔۔“ وہ پورے یقین سے بولی تو ارسل اس کی بات پر بے ساختہ مسکرادیا۔
سامنے ٹیبل پر موجود لڑکا اب ویٹر سے کوئی بات کر رہا تھا۔ اس نے رستوران کی سفید اور ہلکی گلابی رنگ کی دیواروں کی تعریف کی۔ ویٹر اب مینیجر کو بلا لایا تھا۔ وہ اس سے بل نہیں لینا چاہتے تھے پر وہ دینے پر بضد تھا۔
”میں کل پھر آؤں گا۔ کافی بھی پیوں گا پر آج آپ کو بل لینا ہوگا۔۔“ اس نے بل کے ساتھ ساتھ ویٹر کو ٹپ بھی دی۔ فجر کی سرسری سی نظر اٹھی اور اس نے عجیب وغریب حلیے والے لڑکے کو دیکھا جو اب اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتے اپنا کیمرہ اٹھا رہا تھا اور پھر وہ باہر نکل گیا۔
”میں یہاں بیٹھا ہوں میری موجودگی میں کسی اور کو مت دیکھو فجر۔۔“ ارسل نے شکوہ کیا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
✿••✿••✿••✿
”میں تمہیں گھر تک چھوڑ سکتا ہوں۔“ گلی کے سامنے گاڑی روکتے ارسل نے پیشکش کی۔
”پہلی بات آپکی یہ لمبی گاڑی ہماری تنگ سی گلی میں داخل نہیں ہو گی اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ لمبی گاڑی دیکھ کر میرے محلے والوں کی اتنی لمبی زبان نکل آئے گی۔۔“ فجر نے آنکھیں مٹکائیں تو ارسل نہ چاہتے بھی ہنس دیا۔ وہ پریشان تھا لیکن اسے محسوس نہیں کروانا چاہتا تھا۔
”ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیے گا۔۔“ وہ شال اچھے سے اوڑھتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔
”اپنا سامان تو لے لو۔۔“ ارسل نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھے بیگ اٹھا کر اسے پکڑائے۔ وہ خالی ہاتھ نہیں آیا تھا اس کے لیے بیکری کی کافی چیزیں لایا تھا۔ فجر نے بیگ تھام لیے۔ دھند پڑرہی تھی اور اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی میں بمشکل ہی کچھ نظر آرہا تھا۔ سامنے نکڑ والی ایک کریانے کی دکان کھلی تھی۔
”اپنا خیال رکھنا۔۔۔“ گاڑی کا دروازہ بند کرتے وقت اسے ارسل کی آواز سنائی دی۔ فجر نے دیکھا تو اسے ارسل کے چہرے پر پریشانی نظر آئی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا محبت سے حسرت سے۔
شاید وہ آنے والے طوفان سے واقف تھا۔
”اللہ حافظ۔۔“ وہ گلی میں مڑگئی۔ ٹک ٹک کی آواز رات کے سناٹے میں گونجی گئی۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے پر یوں لگتا تھا جیسے گیارہ بج گئے ہوں۔ وہ رات نو بجے جاب سے واپس آتی تھی لیکن آج اس نے چھٹی کی تھی۔ گاڑی میں ہیٹر چل رہا تھا اور اب باہر نکل کر اسے سردی کا احساس ہوا۔ ٹھندی ہوا ہڈیوں میں گھس رہی تھی۔ اس نے کانپتے ہوئے گھر کا گیٹ بجایا۔جب کوئی نہ آیا تو اسے پھر سے بجانا پڑا۔ کچھ دیر بعد اسے اماں کی آواز سنائی دی۔ وہ گیٹ کھول رہی تھی۔
”السلام علیکم!“ اس نے گھر میں داخل ہوتے سلام کیا جبکہ اماں کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لیے خوشبوؤں میں رچی بسی فجر کو گھور رہی تھی۔ فجر بھی انہیں نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی۔ آج اس کی چال میں فخر تھا مان تھا غرور تھا۔ ارسل کے گھر والے اس سے ملنے کو تیار تھے۔
اماں اپنی تمام بد دعاؤں سمیت ہارنے والی تھی۔
اس نے کمرے میں آکر سب سے پہلے سامان رکھا اور پھر کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو کر جب وہ واپس کمرے میں آئی تو اماں اتنا کھانے پینے کا سامان دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ تمام ڈبے کھول کر دیکھ چکی تھی۔
بالوں کو اچھے سے فولڈ کیے دھلے دھلائے چہرے کے ساتھ وہ اب بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
”یہ شریف لڑکیوں کے گھر آنے کا وقت ہے؟؟“ اماں کو کہنے کو یہی ملا تھا۔ فجر نے ایک نظر اماں کو دیکھا اور پھر گھڑی دیکھی۔
”ابھی آٹھ بجے ہیں روز مجھے آفس سے آتے آتے نو بج جاتے ہیں اماں! تب شرافت کہاں ہوتی ہے۔“ اس نے بمشکل خود کو کچھ غلط کہنے سے روکا۔ اسے اپنی اماں کے دہرے معیار کی سمجھ نہیں آتی تھی۔
”تو نہ کر کمائی۔ ہم نے اسے آگ لگانی ہے؟؟“ اماں نے شاید زہر اگلنا ہی سیکھا تھا۔
”ہاں تاکہ میں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں۔۔“ وہ چیزیں سمیٹتی بڑبڑائی۔ فی الوقت وہ بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔
”جانتی ہے محلے والے ایسی لڑکیوں کو کیا سمجھتے ہیں جو یوں سج دھج کر رات کو کسی غیر مرد کی گاڑی سے اُتریں؟؟“ اماں نے لتاڑنا چاہا۔
”اماں میں محلے کی نظروں میں ویسے بھی شریف نہیں ہوں تو مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا سوچتے ہیں۔ تجھے بھی نہیں پڑنا چاہیے تو جانتی ہے مجھے۔۔“ وہ پھر بڑبرائی۔
”ہاں تجھے کیوں فرق پڑے گا تجھے ماں باپ کی عزت کی کیا پرواہ؟؟“ اماں بھی باز نہیں آتی تھی۔ وہ تسبیح گھما رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کی کلاس لے رہی تھی۔
”اماں۔۔۔“ وہ احتجاجاً بولی۔ ہاتھ میں پکڑا بیگ وہ الماری میں رکھ رہی تھی پر اماں کے الفاظ تیر کی طرح لگتے تھے۔
”ارسل کے گھر والے مان گئے ہیں وہ جلد رشتہ لینے آئیں گے۔۔“ اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خبر اماں کو دی۔ اماں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ایک پل کے لیے الفاظ گم ہوگئے۔ جبکہ فجر اب الماری کھولے چیزیں سیٹ کر رہی تھی۔
”محلے والوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی اماں جب ارسل بارات کے کر آئے گا۔۔“ مان تھا، فخر تھا کیا کچھ نہیں تھا۔
”ہاں دیکھتی رہ اُسکے خواب۔۔۔“
”ارسل میرا خواب نہیں میری زندگی ہے اماں۔۔“
”ارسل تیری موت ہے فجر۔۔۔“ اماں کو ذرا ترس نہ آیا۔
تہہ لگے کپڑے الماری میں رکھتی فجر کے ہاتھ کانپ اٹھے۔ اس کا دل رک سا گیا۔
”اماں ایسے نہ بولا کر۔“ اس نے الماری کا پٹ زور سے بند کیا۔ آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
”اسے کھونے کا خوف پہلے پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔“ وہ بولی تو آواز بھرا گئی۔ پتا نہیں اماں اسکے احساسات کیوں نہیں سمجھتی تھی۔ اس نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا تھا ایک محبت ہی تو کی تھی۔ پھر اماں ایسی باتیں کیوں کرتی تھی؟؟
”جن چیزوں کے کھو جانے کا ڈر ہو نا اُنکا چھن جانا یقینی ہوتا ہے۔۔!!“ اماں کا لہجہ عجیب تھا پر فجر کے دل کو پہلے ہی ہاتھ پڑچکا تھا۔ اماں نے اسکی ساری خوشی ملیا میٹ کردی تھی۔ وہ اب بیڈ پر بیٹھی آنسوں بہانے لگی۔ اماں نے تاسف سے اسے دیکھا۔
”دیکھ فجر یہ تیرا پہلا اور آخری موقع ہے۔ اگر اس لڑکے کے گھر والے مان گئے اور وہ رشتہ لے آیا تو تیری قسمت۔ پر میں تجھے دوسرا موقع نہیں دوں گی۔ تجھے بلقیس کے لڑکے سے شادی کرنی ہوگی۔۔“ اماں نے جیسے حکم دیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اپنی سسکیوں کو ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اماں اسے چھوڑ کر چلی۔ دروازہ بند ہوگیا۔ کچھ دیر پہلے وہ سینکڑوں برقی قمقموں میں بیٹھی تھی اور اب پلستر اتری دیواروں والے کمرے میں تھی جس میں ایک چھوٹے بلب کی زرد روشنی کمرے کے اندھیرے کو کم نہیں کر پارہی تھی۔ کتنی ہی دیر وہ یوں بیٹھی رہی۔ اس کے پاؤں نیلے پڑگئے۔ سردی کی شدت سے دانت بجنے لگے تو وہ اٹھی اور بستر سیدھا کرکے لیٹ گئی۔ ارسل کا ابھی تک کچھ میسج نہیں آیا تھا۔
دوسری طرف اماں اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔
”اس پر اتنی سختی نہ کر۔“ ابا بولا۔
”تو چپ کر فجر کے ابا۔۔۔“ اماں نے ابا کا منہ بند کیا۔ ابا کچھ پل کے لیے چپ ہوگیا۔
”مجھے لگتا ہے میرا وقت آگیا ہے یا فجر کا وقت آگیا ہے۔۔“ وہ بولا تو لہجہ عجیب تھا۔ اماں نے چونک کر اسے دیکھا۔ معراج دین ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا ٹی بی کے علاوہ جانے کونسی بیماری تھی جو انہیں ٹھیک نہیں ہونے دیتی تھی۔
”وہ مجھے دِکھائی دینے لگی ہے۔ وہ مجھ پر ہنستی ہے۔ وہ دیکھ سامنے دروازے کے پاس کھڑی ہے۔ وہ دیکھ منار کھڑی ہے۔۔“ ابا نے کپکپاتا ہاتھ اٹھا کر انگلی سے دروازے کی جانب بمشکل اشارہ کیا۔ اماں حیرت سے کبھی ابا کو تو کبھی دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں کوئی نہیں تھا جبکہ ابا کے چہرے کی رنگت خوف اور وحشت سے پھیکی پڑگئی تھی کیونکہ وہ تالیاں بجاتے ابا پر ہنس رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ارسل جب گھر پہچا تو ساڑھے آٹھ کا وقت تھا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی کرتے وہ اندر کی جانب بڑھا۔ فجر کے دیے گئے سارے گفٹس اس نے گاڑی میں ہی رہنے دیے تھے۔ جانتا تھا اندر کا ماحول کیسا تھا۔
وہ ڈرائنگ روم سے گزرتے لاؤنج میں آیا تو سبھی گھر والوں کو وہاں موجود پایا۔ گھر میں خلاف معمول زیادہ خاموشی تھی۔
”السلام علیکم“ اس نے ہولے سے سلام کیا۔ دادی اماں، برہان گردیزی، مسز برہان، اس کی چھوٹی بہن سہانا اور چھوٹا بھائی صائم سب وہاں تھے۔ مسز برہان اور سہانا دونوں سر پر دوپٹہ جمائے سلیقے سے بیٹھی تھی۔ مسز برہان زیرلب کچھ پڑھ رہی تھیں۔ اس کے سلام کا جواب سب نے مشترکہ دیا تھا۔
”خیریت ہے آج سب یہاں؟؟“ وہ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بولا۔
”ہاں تمہارا ہی انتظار ہورہا تھا۔۔۔“ برہان گردیزی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔ سر پر ٹوپی اوڑھے اور شلوار قمیص پہنے وہ سرد آنکھوں سے اسے گھور رہے تھے۔
”صائمہ پوچھو اپنے سپوت سے کہاں تھا یہ؟؟“ انہوں نے مسز برہان کو مخاطب کیا۔ مسز برہان نے التجائی نظروں سے ارسل کو دیکھا۔ وہ آج اس کے برتھ ڈے کے دن کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھیں۔ دونوں ماں بیٹیوں نے مل کر کتنی تیاری کی تھی۔ ڈنر بنایا تھا پر یہاں سب الٹ ہوگیا تھا۔
”بتایا تھا آپ کو۔۔“ وہ براہ راست برہان گردیزی سے بولا۔
”ہاں بتایا تھا موصوف ایک لڑکی کے ساتھ تھا۔ جس سے یہ عشق کرتا ہے ایک بےپردہ بےحیا لڑکی سے۔۔“ ان کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔
”بابا۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلایا۔ آنکھوں اور چہرے پر صدمہ واضح تھا۔
”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اُس لڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ لڑکی جس کے سر پر دوپٹہ تک نہیں تھا۔۔“
وہ کڑکے لہجے میں بولے جبکہ مسز برہان اور سہانا ان کی آواز پر کانپ اٹھتی تھیں۔ ارسل نے بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔ انہوں نے بتایا تھا اس کا باپ فجر سے ملنا چاہتا تھا رشتہ لے کر وہ بعد میں جاتے۔ مسز برہان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کی تلقین کی۔
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے فجر ایسی نہیں ہے وہ بہت اچھی لڑکی ہے آپ ایک بار مل لیں یقیناً آپ کو اچھا لگے گا۔۔“ اس نے لہجے کو حد درجہ نرم رکھنے کی کوشش کرتے اپنی عرضی رکھی۔ جانتا تھا وہ انکے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتا تھا اس لیے ان کا ماننا بہت ضروری تھا۔
”ہمارے گھر کی عورتوں کو آج تک کسی غیر محرم نے نہیں دیکھا اور وہ لڑکی سرعام سج سنور کر بیٹھی تھی۔۔“ انہوں نے پہلو بدل کر بےچینی سے ٹہوکا دیا۔
”چلو بس کرجاؤ برہان۔ بچے کے خاص دن کو برا مت بناؤ۔۔“ دادی اماں بالآخر بول پڑیں۔
”کل بلاؤ اس لڑکی کو میں ملنا چاہتا ہوں اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔۔“ برہان گردیزی اپنا فیصلہ سناتے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ارسل حیران رہ گیا۔
”کل۔۔۔؟؟“ بےساختہ اس کے لبوں سے پھسلا۔
”کیوں کل نہیں آسکتی؟؟“ وہ بھڑکے۔
”نہیں نہیں ٹھیک ہے وہ آجائے گی۔۔“ وہ لبوں پر زبان پھیرتے بولا۔ سہانا اور مسز برہان کے چہرے پر خوشی کی رمق ابھری۔ وہ بیٹے کی خوشی دل سے چاہتی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
آج کے دور میں جہاں دو لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونا سب سے مشکل فعل ہے وہیں اگر دو لوگ مخلص ہوجائیں تو ان کے درمیان معاشرہ اور لوگ آجاتے ہیں اور لوگ بھی اپنے، اپنے ماں باپ۔۔!!
اس رات وہ سو نہیں پائی۔ بستر میں دبکی روتی رہی۔ اپنی کم مائیگی پر، اپنے احساس کمتری پر، معراج دین کی بیٹی ہونے پر۔
رضائی اوڑھے وہ بستر میں لیٹی کپکپاتی رہی حالانکہ بستر گرم تھا پر اس کے اندر ٹھنڈک اتر رہی تھی۔ باہر تاریکی بڑھتی گئی اور اندر وحشت۔
پھر کہیں رات بارہ بجے ارسل کا میسج آیا۔
”بابا کل تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔“
وہ ساکت رہ گئی۔
”کل۔۔؟؟“ وہ اٹھ بیٹھی۔ لیٹ کر میسج ٹائپ نہیں ہو رہا تھا۔
”ہاں کل شام پانچ بجے۔۔“ وہ کافی سنجیدہ تھا۔
”لیکن میرا آفس۔۔۔“ وہ بات اُدھوری چھوڑ گئی۔
”ایک چھٹی کرلو فجر۔ کمپنی رک نہیں جائے گی۔۔۔“
اسے لگا وہ روڈ تھا۔ فجر نے لب بھینچ لیے۔ وہ جانتی تھی وہ لڑ رہا تھا اپنی محبت کے لیے لیکن وہ نہیں چاہتی تھی اس لڑائی میں انکی محبت کم ہو۔
”ٹھیک ہے میں آجاؤں گی۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ ارسل نے میسج سین کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کتنی دیر فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہی لیکن اس کا میسج نہیں آیا۔ وہ شاید سو چکا تھا۔پھر وہ بھی فون تکیے کے نیچے رکھ کر لیٹ گئی۔ اسکا فون سائلنٹ پر ہوتا تھا کیونکہ اماں کو اسکے فون کا بار بار بجنا پسند نہیں تھا۔ وہ تکیے کے نیچے رکھ کر سوتی تھی کہ رات کے کسی پل اگر ارسل میسج کرے تو وہ وائبریشن سے اٹھ ہوجائے۔ ارسل کو انتظار کرانا اسے پسند نہیں تھا۔
کوئی اور دن ہوتا تو اسے ارسل سے اگلے دن ملنے کی بہت خوشی ہوتی کیونکہ وہ کم کم ہی مل پاتے تھے۔ پہلے پہل وہ اس سے ملنے سے ڈرتی تھی اور جب پہلی بار ملی تو اس نے جانا وہ ایک بےضرر سا انسان تھا۔ نہ وہ اسے بلاوجہ چھوتا تھا اور نہ کبھی اس نے کوئی فضول گفتگو کی تھی۔ پھر اس کا ڈر کھل گیا۔ خوف دور ہوگیا اور اب وہ اس کا سب کچھ تھا۔
جانے کیا ہونے والا تھا۔ جانے ارسل کے گھر والے اس سے مل کر کیا رہ ایکٹ کرنے والے تھے۔ جانے وہ انہیں پسند آتی بھی یا نہیں۔۔؟؟ بہت ساری باتیں دماغ میں چل رہی تھی۔ پچھلے پہر اس کی آنکھ لگی تھی اور فجر کے وقت اماں نے دروازا بجا بجا کر اٹھا دیا۔ وہ بھی بنا کچھ بولے اٹھ گئی۔ آج اسے دعا کرنی تھی۔ اپنی محبت کے لیے اور جانے کتنے عرصے بعد اس نے دعا مانگی تھی۔ اس ہے بعد نیند پھر سے کہیں دور جا سوئی۔ وہ اماں نے پاس ہی باورچی خانے میں بیٹھ گئی۔ اماں کو صبح صبح خالی معدہ چائے پینے کی عادت تھی۔
”ارسل کے گھر والے آج مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے اماں کو آگاہ کیا۔ توقع کے مطابق اماں کے چہرے کے ساتھ تاثرات بگڑ گئے۔
”پہلے مجھ سے پوچھ کر جاتی ہے؟؟“
”اماں میں ابا اور تیری مرضی کے بغیر تو یہ شادی نہیں کر سکتی۔۔“ اس نے احتجاجاً بتایا۔ اماں نے چائے چھوٹے کپ میں ڈال دی۔
”دیکھ فجر عزت دار لوگ رشتہ مانگنے گھر آتے ہیں یوں لڑکی کو باہر نہیں بلاتے۔۔۔“
بات تو اماں کی ٹھیک تھی۔ اسکے دل کو کچھ ہوا پر وہ خود پر قابو پاتے فوراً بولی۔
”رشتہ لینے وہ لوگ گھر ہی آئیں گے پر تو انہیں کدھر بٹھائے گی؟؟ یہاں اس گھر میں؟؟ اماں ان کے بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہیں ہے۔۔“ وہ خود پر قابو پاتے لڑ رہی تھی ارسل کے لیے اسکی محبت کے لیے۔
”جا تیرے باپ کو چائے دے آ۔۔“ اماں نے اس کی بات نظر انداز کی۔ وہ اب آٹا گوندھنے کے لیے پانی گرم کررہی تھی۔ باورچی خانے میں جلتے کوئلوں کی گرمائش تھی جس سے ہڈیوں کو سکون مل رہا تھا۔
”خالی پیٹ صبح صبح ابا کو چائے پلا دیتی ہے ایسے بیماری ٹھیک ہوگی کیا؟؟“ وہ کپ اٹھاتے بڑبڑائی۔ جبکہ اماں کچھ نہ بولی۔ چائے اٹھا کر وہ اندر آئی تو ابا اپنے بستر پر، آنکھیں پھاڑے، لیٹا تھا۔ آنکھوں میں خوف واضح تھا۔
”جا منار چلی جا۔۔۔“ وہ منار کو جانے کا کہہ رہا تھا جو اب جاتی ہی نہیں تھی۔ اس پر ہنستی رہتی تھی۔
”ابا۔۔۔“ کمرے کی فضا میں عجیب سی مہک تھی۔ فجر نے بے اختیار دوپٹہ ناک پر رکھا۔ ابا کے بستر کے نیچے پیتل کا برتن رکھا تھا جس میں چولہے کی راکھ تھی۔ ابا کو اکثر کھانس کھانا کر قے آجاتی تھی اور اس کے لیے یہ برتن استعمال ہوتا تھا۔ اسی کی ہی بدبو کمرے میں پھیلی تھی۔
”ابا لے چائے پی لے۔۔۔“ اس نے چھوٹے سے پرانے ٹوتے پھوٹے میز پر چائے کا کپ رکھ دیا۔ پہلے ابا مٹی کی پیالی میں چائے پیتا تھا۔ پیالی کو کپ سے فجر نے ہی بدلا تھا۔ جیسے ہی وہ کپ رکھ کر مڑنے لگی ابا نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو مدھم روشنی میں ابا کا چہرہ خوفناک لگا۔ وحشت سے پھٹی آنکھیں دیکھ کر فجر گھبراگئی۔
”ابا کیا ہوگیا ہے تجھے؟؟“ وہ اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پر ابا کے ڈھانچہ نما بازو میں جانے اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی۔ فجر کو اپنی کلائی جلتی محسوس ہوئی۔
”تو بھی نہیں بچے گی۔ تو بھی مرے گی۔ تجھے بھی منار کی طرح مرنا ہوگا۔۔“
”ابا چھوڑ۔۔“ اس نے زوردار جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور پھر کمرے سے نکل گئی۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ آج کل سب اس کے دشمن بن گئے تھے۔
”ابا کو ہسپتال لے جا اماں پتا نہیں کیا اول فول بولے جارہا ہے۔ پاگل ہوگیا ہے۔۔“ اپنی جلتی کلائی سہلاتے وہ واپس آئی۔
”پیسہ کہاں سے لاؤں؟ پیڑ پر اگتے ہے کیا؟؟“ اماں کا لہجہ تلخ تھا۔ وہ آٹا گوندھ چکی تھی۔
”جو رکھے ہیں انکا اچار ڈالے گی؟؟“
”تیرے بیاہ کے لیے رکھے ہیں۔۔“
”مجھے نہیں چاہیے اور چند ہزار میں تو میرا کونسا جہیز بنا لے گی؟؟ دل کھٹا ہوگیا۔
”جا چلی جا فجر! میرا دماغ نہ خراب کر۔۔“
اس نے ایک نظر اماں کو دیکھا جو اب رات والا سالن گرم کر رہی تھی۔ ان کے لیے یہی سالن من و سلوی سے کم نہیں تھا۔
”میں جارہی ہوں بس بتانے آئی تھی کہ ارسل میرا ہے۔۔۔“
وہ اٹھنے لگی پر اماں کے چہرے پر ابھرتی طنزیہ مسکراہٹ اسے اندر تک سلگا گئی۔
”کسی کو اپنا مان لینے سے وہ اپنا نہیں ہو جاتا فجر۔۔!!“
وہ پتا نہیں اتنی تلخ باتیں کیوں کرتی تھی۔ فجر کا دل ڈوب کر ابھرا۔
”وہ میرا ہے اماں۔۔۔“ اسے اپنی ہی آواز دور کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
”ہنہہ۔۔۔“ اماں نے آگ پر تیل چھڑک دیا۔ فجر کو اپنی نم آنکھوں میں اماں کا وجود دھندلایا محسوس ہوا۔
”زمانہ بدل گیا ہے اماں۔ آج کل شادیاں ایسے ہی ہوتی ہیں۔۔“ بودی سی دلیل دی۔ جانے خود کو دی تھی یا اماں کو۔
”زمانہ بدلنے سے روایات نہیں بدل جاتیں۔۔۔“ اماں کی بوڑھی ہڈیوں میں جان باقی تھی۔ باہر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں تیز ہوگئیں۔فجر کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اماں اب آٹے کا پیڑہ بنانے لگی۔
”مجھے یقین ہے اماں اللّٰہ نے اسے میرے لیے بنایا ہے اسے میرے لیے بھیجا ہے ورنہ وہ مجھے ملتا ہی کیوں؟؟“
”اسکا سوچا ہے کبھی جس کے لیے اللہ نے تجھے بنایا ہے؟؟ اسے کل کو کیا جواب دے گی؟؟ ساری محبت کسی غیر پر لٹادی؟؟“ اماں نے اس بار اس کا دل نکال کر انگیٹھی میں ڈال دیا۔ وہ لہو لہان سینہ لیے کھڑی رہی۔جلن بڑھتی گئی۔ اماں نے اب گرم توے پر روٹی ڈالی۔ اس نے کچھ سوچنا چاہا پر ارسل سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ آگے بس اندھیرا تھا۔
”ہماری محبت سچی ہے اماں اللہ ہم پر اپنا کرم کرے گا۔۔“
وہ پورے جذب سے بولی۔
اماں نے کہنا چاہا کہ ”ماں باپ کی محبت کے سامنے ساری محبتیں دم توڑ جاتی ہیں۔۔“ پر وہ خاموش رہی۔ فجر کو سمجھانے کا فائدہ نہیں تھا۔ وہ ارسل کی محبت میں پتھر ہوچکی تھی اور پتھروں سے سر پھوڑ کر کیا ملتا ہے؟؟
✿••✿••✿••✿
گھر سے نکلتے وقت اماں نے اسے ٹوکا۔
”یہ تیرا پہلا اور آخری موقع ہے فجر! یاد رکھ اس کے بعد کچھ بھی نہیں۔۔“ اماں نے اسے یاددہانی کرائی۔ اگر اسکی محبت ہار جاتی تو اسے بلقیس کے لڑکے سے۔۔۔۔۔
”کبھی نہیں۔۔۔۔“ وہ تصور بھی نہیں کر سکی۔
اور اب وہ اضطراب کی کیفیت میں بیٹھی ہاتھ مسل رہی تھی۔ پانچ بج چکے تھے پر ارسل اور اس کے گھر والے ابھی تک نہیں آئے تھے۔ آج وہ کل والے حلیے میں نہیں تھی۔
آج چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔ بال بندھے تھے۔ ہلکے جامنی رنگ کا خوبصورت سا کھدر کا سوٹ پہنا تھا جس کھلا ٹراؤزر سفید رنگ کا تھا اور سر پر قمیص کے ہم رنگ دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جبکہ سفید گرم جیکٹ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے پہن رکھی تھی۔ پاؤں سفید بند جوتوں میں مقید تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی ارسل کے گھر والوں کے سامنے وہ اوور لگے۔ وہ سمپل اور ڈیسنٹ لگنا چاہتی تھی۔ تیار تو وہ کبھی کبھی ارسل کے لیے ہوتی تھی۔
ریستوران کا دروازہ کھلا اور فجر نے بےتابی سے دیکھا پر آنے والا ارسل نہیں تھا۔ کندھے پر سیاہ بیگ لٹکائے ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ وہ آج پھر کل والے ریستوران میں تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ چاہتی تھی ارسل کے گھر والے جلدی سے آئیں اور اس کے حق میں فیصلہ کردیں تاکہ کانٹوں پر گزرتی یہ رات ختم ہو۔ آج وہ کپل ایریا میں نہیں بیٹھی تھی۔ بڑی سی میز کے گرد پانچ کرسیاں رکھی تھیں اور وہ ان میں سے ایک پر بیٹھی تھی۔ اب اس نے رخ پلٹ کر داخلی دروازے کی جانب کرلیا۔ گلاس وال اور گلاس ڈور سے باہر کا منظر واضح ہوا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی جیسے اسکا کوئی بڑا امتحان ہو۔
اچانک ایک لمبی گاڑی باہر آکر رکی۔ باہر کھڑا گارڈ اب گاڑی پارک کروا رہا تھا۔ یہ ارسل کی گاڑی نہیں تھی وہ اسے پہچانتی تھی۔ تبھی دروازہ کھلا اور ارسل باہر نکلا۔ فجر نے بے ساختہ خشک لبوں پر زبان پھیری۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے۔ وہ فٹافٹ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ارسل سب گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول رہا تھا۔ ایک برقعے والی خاتون باہر نکلی۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکے کی نظر اچانک اس پر پڑی۔
"Beauty in Purple.."
وہ ہولے سے بڑبڑایا۔ کل دونوں بھی وہ ایک وقت میں یہاں موجود تھے اور آج پھر۔ لیکن آج وہ اکیلی تھی اور ںےچین تھی۔ وہ کندھے اُچکاتا اپنے فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ آج پھر اس کے ہاتھ میں کیمرہ تھا اور عجیب سی ٹیپ ریکارڈر تھی۔ ہیڈ فون اس کے کانوں پر لگا تھا اور کیپ سر پر تھی۔ شاید یہ اس کا ازلی حلیہ تھا۔ وہ بھی وہاں کسی کا ویٹ کر رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
William Wali All Previous Episodes
👉Episode 4(part 02): Click Here
👉Episode 4(part 01): Click Here
👉Episode 3(part 02): Click Here
👉Episode 3(part 01): Click Here
👉Episode 2: Click Here
👉Episode 1: Click Here
ReplyDelete"اس کا سوچا ہے کبھی جس کے لیے اللّہ نے تجھے بنایا ہے؟ اسے کل کو کیا جواب دے گی؟ ساری محبت کسی غیر مرد پر لٹادی۔"۔۔۔۔۔۔۔
Beauty in red ❤️....
Beauty in purple 💜....
The first episode is outstanding....... Your writings always make me feel stronger and I get ready to survive in this hectic life.
جن چیزوں کے کھو جانے کا ڈر ہو،ان کا چھن جانا یقینی ہوتا ہے۔
ReplyDeleteBeauty in red♥️
Beauty in purple💜
1st time koe novel pehli eps sy hi qist waar prhna shiru kiya aur ab muje lag rha ye boht hi lesson able novel hoga😍😍
ماشاءاللہ بہت اچھا اور عمدہ لیکھ رہی ہیں آپ ۔
ReplyDeleteFabulous and fantastic
ReplyDeleteHamesha ki tarhan Ap ki novels suspense Sy bharpoor hoti hn
Beauty in red and purple ayyy hyyeee
ReplyDelete