William Wali Novel episode 4 - part 01

 

William Wali novel episdoe 04 part 01

ولیم_ولی (معرفت اور محبت ہر ایک کو نہیں ملتی)
قسط_نمبر_4 پارٹ_1
نور_راجپوت
باب دوئم : ڈیفالٹ پیس
ہر گھر میں بچوں کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ بڑا، درمیانہ اور چھوٹا۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں گھر کے بڑے بچوں کی۔ یہ وہ بچے ہے جنہیں نسبتاً زیادہ زمہ داری اُٹھانی پڑتی ہے۔ زیادہ محنی، زیادہ سمجھدار، نسبتاً ذہین اور کم گو۔ یہ والدین کے بعد دوسرے والدین کہلاتے ہیں۔
پہلے قدم اُٹھانے والا چاہے اچھائی کی طرف ہو یا برائی کی طرف لیکن اُنکا رجحان زیادہ تر اچھائی کی طرف ہوتا ہے۔ انہیں رہنمائی کرنی ہوتی ہے اپنے باقی بہن بھائیوں کی کیونکہ یہ بچے جانتے ہیں ان کے پیچھے، ان کے نقش قدم پر چلنے والے چھوٹے بہن بھائی موجود ہیں۔
گھر کے بڑوں بچے کی پوری زندگی پرفکیٹ بنتے گزرجاتی ہے۔ سب کے پسندیدہ اور کبھی کبھی باقیوں کے لیے قربانیاں دیتے۔ یہ فیصلے لینے والے ہوتے ہیں اس لیے زیادہ ان کی زندگی سوچتے سمجھتے گزر جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر ہم بات کریں گے گھر کے سب سے چھوٹے بچوں کی۔ سب سے زیادہ حساس! اُنہیں یا تو سب سے زیادہ پیار ملتا ہے، زیادہ توجہ ملتی ہے یا توجہ ملتی ہی نہیں ہے۔ یہ بچے بچپن سے ہی تیزطرار اور تیکھے ہوتے ہیں۔
ہر چیز پر گہری نظر رکھنے والے، گہرا مشاہدہ کرنے والے، انکے پاس پورے خاندان کی خبریں ہوتی ہیں۔
انہیں زیادہ غلطیاں کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی غلطیوں سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ گھر سنبھالنے کی پوری زمہ داری کبھی کبھی اِن پر آجاتی ہے۔ مڈل کلاس گھروں میں سب سے چھوٹا بھائی سودا سلف لانے والا اور چھوٹی بہن کام والی کہلائی جاتی ہے۔
اور انہیں سب سے زیادہ ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اپنی عمر سے جلدی سمجھدار ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کم عمری میں ہی کافی کچھ دیکھا ہوتا ہے۔
اور تیسرے نمبر پر ہم بات کرتے ہیں درمیانے بچوں کی۔ انہیں بیان کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ ان کے لیے مناسب لفظ ”ڈیفالٹ پیس“ ہے۔ انکی سیٹنگ ڈیفالٹ ہوتی ہے یعنی آٹومیٹک۔ اس سیٹنگ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں سمجھنا سمجھانا پتھر سے سر پھوڑنے کے برابر ہے۔ انکا دماغ الگ رخ پر بہتا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں خاندان میں سب سے زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے اور یہی وہ بچے ہیں جنہیں خاندان میں سب سے زیادہ زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن اچھے الفاظ میں تو ہرگز نہیں۔ یہ منہ پھٹ اور بدتمیز کہلائے جاتے ہیں۔
انکی گنگا الٹ بہتی ہے۔ نہ انکی چھوٹے بہن بھائیوں سے بنتی ہے اور نہ بڑوں سے۔ انکا کام کھانا پینا اور دوسروں کا جینا حرام کرنا ہوتا ہے۔ انہیں فرق نہیں پڑتا کوئی انکے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ یہ زمہدار یا حساس نہیں ہوتے بلکہ یہ شدت پسند ہوتے ہیں۔ یہ بڑے اور چھوٹے کے درمیان پسے ہوتے ہیں اس لیے تھوڑے رف ٹف سے لگتے ہیں۔
انہیں فرق نہیں پڑتا دنیا میں کیا چل رہا ہے۔ دنیا کہاں جا رہی ہے۔ دنیا میں آگ لگی ہے یا دنیا میں قیامت آگئی ہے کیونکہ انکی اپنی دنیا الگ ہوتی ہے۔ یہ تو آج کوئی نہیں جان پایا انکی دنیا کونسی ہوتی ہے پر کوئی تو ہوتی ہے۔
انہیں متاثر کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ انہیں آپ دنیا میں یا تو سب سے آگے دیکھیں گے یا سب سے پیچھے۔ میانہ روی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ یا تو ماڈل بنے گھومتے ہیں یا پھر مسکین فقیر جنہوں نے کبھی کچھ نہیں دیکھا۔
کہا جاتا ہے ان کا فیملی میں سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے پر سچ تو یہ ہے دنیا کا سب سے زیادہ استحصال یہی کرتے ہیں۔یہ دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ باقی بہن بھائیوں کے کپڑے جوتے استعمال کرکے ان پر احسان کرتے ہیں۔ یہ ماں باپ کی وہ اولاد ہے جسکے ساتھ ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسئلہ رہتا ہے اور یہ جانور کی وہ دُم ہے جو کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔
انکی اس سے زیادہ تعریف کیا کی جا سکتی ہے؟؟
اور ایسا ہی ایک ڈیفالٹ پیس جوزف پیٹرسن کے گھر میں بھی پیدا ہوا تھا جس کا نام ولیم جوزف تھا۔ لیکن اسکے ڈیفالٹ پیس ہونے کی وجوہات الگ تھیں۔ مسٹر جوزف نے جتنی پریشانی ولیم کی وجہ سے اٹھائی تھی جتنی توجہ اسے دی تھی اتنی گھر میں موجود باقی تین بچوں کو کُل ملا کر بھی نہیں ملی تھی۔
ولیم اپنی ڈیفالٹ سیٹنگ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور وہ ڈیفالٹ کیوں تھا یہ تو جلد ہی آپ جان جائیں گے لیکن فی الوقت جوزف پلیس میں آکیسجن کی کمی محسوس ہورہی تھی اور مسٹر جوزف ہونٹ بھینچے کھڑے تھے جبکہ جارج فون سن رہا تھا۔
”جوزف پیلس سے بات کر رہے ہیں؟؟“ دوسری جانب سے پوچھا گیا۔
”جی بات کر رہا ہوں۔۔“ اُسکا دل دو سو کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔
”میں سٹی ہاسپٹل سے بات کر رہا ہوں۔ ہمارے ہاں ولیم جوزف کو لایا گیا ہے۔ جن کا کافی برا ایکسڈنٹ ہوا ہے۔ آپ پلیز جلد از جلد ہاسپٹل پہنچیں۔“ فون بند کردیا گیا جبکہ جارج کے ہاتھ پاؤں باقاعدہ کانپنے لگے۔ گلا خشک ہوگیا۔
وہ دھیرے سے پلٹا۔
”ولیم کا ایکسڈنٹ ہوا ہے۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے خبر دی۔ مسٹر جوزف نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”یاخدایا۔۔۔!“ نینی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر دہائی دی۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ چکی تھیں۔ انہیں ولیم عزیز تھا۔ نساء تیزی سے جارج کی جانب بڑھی جبکہ صوفی نے آگے بڑھ کر نینی کو سنبھالا۔
”ولیم ٹھیک ہے نا؟؟ زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟؟“ نساء گھبرائی گھبرائی سی پوچھنے لگی۔
”یہ تو ہاسپٹل جا کر پتا چلے گا میں گاڑی نکالتا ہوں۔“ وہ تیزی سے کہتا ان کے پہلو سے گزر کر چلا گیا جبکہ مسٹر جوزف نے پہلے ہی ڈرائیور کو ہاسپٹل جانے کا حکم دے دیا تھا وہ جارج سے پہلے ہی پیلس سے نکل چکے تھے۔
✿••✿••✿••✿
وہ کہتے ہیں وہ مجھ سے
ناراض نہیں ہیں
میں اس سب کا حصہ نہیں ہوں
لیکن وہ میرا حصہ ہیں
ان میں سے ہر ایک میرا حصہ ہے
جب وہ چیختے چلاتے ہیں
جب وہ خاموش ہوتے ہیں
انکی آوازیں گہرے راز رکھتی ہیں
یہ تکلیف پہنچاتی ہیں
میرے اس حصے کو
جو میں حقیقت میں ہوں
شام کے سائے گہرے ہورہے تھے اور ایسے میں کمرے کے وسط میں رکھا وہ میز اور اس پر جلتی وہ تین چھوٹی بڑی کنینڈلز اپنے تمام تر اُجالوں کے ساتھ کمرے کے اندھیرے کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کی مہک مسحور کن تھی۔ کمرے کی دیواروں کا کریم رنگ پرسکون تھا۔ بڑی سی گلاس وال سے باہر عمارتوں کے عقب میں ڈوبتا سورج اپنی آخری سانسیں لیتے ہلکی سی شفق چھوڑ رہا تھا۔ گلاس وال کے سامنے ہی سفید رنگ کا ڈبل سیٹر صوفہ رکھا تھا یہ بہت ہی صاف ستھرا اور آرام دہ تھا۔
سفید صوفے کے بالکل سامنے میز تھا اور دوسری جانب دو سنگل صوفے رکھے تھے۔ نباتاتی رنگ کے یہ صوفے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچارہے تھے۔ صوفوں کے داہنے جانب کی دیوار پر بڑی سی شیلف نقب تھی جس میں ڈھیر ساری کتابیں تھیں اور صوفوں کے درمیان جہاں میز رکھا تھا کریم رنگ کا بڑا سا آرام دہ قالین بچھا تھا جبکہ باہنی دیوار کے قریب ایک قطار میں پودے رکھے تھے جنکے اوپر خوبصورت پینٹنگز لٹکی تھیں۔ اور چاروں صوفوں کے اطراف میں برقی قمقمے لٹک رہے تھے جنکی روشنی مدھم تھی۔ کمرے کا فرش لکڑی کا تھا اور کمرے میں زیادہ سامان نہیں تھا۔ پہلی ہی نظر میں کمرہ سکون کا احساس دلاتا تھا۔
کمرے کی اس خاموشی میں ایک عجیب سی آواز ابھر رہی تھی وہی آواز جو اسکیچ بک پر تیزی سے پینسل چلاتے وقت ابھرتی ہے۔
ایک نو سالہ بچہ قالین کے وسط میں رکھے میز کے قریب نیچے بیٹھا تھا وہ اسکیچ بک پر تیزی سے ہاتھ چلا رہا تھا۔ کنینڈلز کی روشنی میں اسکا اسکیچ واضح نہیں تھا تھا۔ سفید ٹی شرٹ پہنے وہ کتھئی آنکھوں والا بچہ اس وقت کافی مصروف محسوس ہوتا تھا۔ دونوں گھٹنے موڑے، کہنیوں کے بل جھکے وہ انہماک سے کام کر رہا تھا۔ گہرے بھورںے، آنکھوں کے ہم رنگ بال ماتھے پر بکھرے تھے وہ کئی لمحے یونہی جھکا رہا اس نے سر اٹھا کر نہیں دیکھا کھڑی کھڑی سوئیاں تیزی سے گھومتی رہیں اور کچھ دیر بعد گلاس وال کے مخالف دیوار میں نقب دروازے کے پرے ٹک ٹک کی آواز گونجی۔ یہ لمحہ بہ لمحہ آواز تیز ہوتی گئی۔ کوئی اسی جانب آرہا تھا۔ کمرے کا فرش لکڑی کا تھا۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور پھر دروازہ کھل گیا۔
”ہیلو ولیم۔۔“ ایک نسوانی آواز اُبھری۔ گہرے سرمئی رنگ کی پنڈلیوں تک آتی سکرٹ اور سفید بلاؤز کے ساتھ وہ ایک چالیس سال خوبصورت سی عورت تھی۔ آنکھوں پر سفید چشمہ تھا جبکہ بال جوڑے میں بندھے تھے۔ اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی جب اسے کمرے میں کوئی نظر نہیں آیا۔ وہ بےتابی سے آگے بڑھی اور پھر ٹھہر گئی۔ ولیم کا ننھا وجود صوفوں کے درمیان چھپا ہوا تھا۔ ولیم نے آواز پر ذرا سا سر اٹھایا وہ اب مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ شہر کا سب سے بڑا اور مشہور ہسپتال تھا جہاں ابنارمل بچوں کو لایا جاتا تھا۔ اُنکا علاج کیا جاتا تھا۔
ایسے بچے جو ذہنی لحاظ سے باقیوں سے الگ تھے۔ جو باقیوں سے پیچھے تھے جو کہیں ٹھہر گئے تھے۔ ایسے بچے جو نفسیاتی لحاظ سے بیمار تھے۔
”تم یہاں چھپے ہو۔“ وہ پیشہ ورانہ انداز میں مسکراتی آگے بڑھی۔ ہیل پیل کی ٹک ٹک گونج گئی۔ وہ سلینا تھی۔ اسی شہر کی سب سے مشہور سائیکالوجسٹ۔ ولیم کی نظریں اسکے جوتوں پر چپک گئیں۔ اونچی نازک سی ہیل والے کورٹ شوز جن کی آواز گونجی رہی تھی اور تب تک گونجتی رہی جب تک وہ فرش سے گزرتی قالین پر آکر کھڑی نہیں ہوئی۔ ان چند لمحوں میں جب تک وہ ٹک ٹک گونجتی رہی ولیم کے چہرے پر تکلیف کے گہرے آثار تھے۔ جیسے ہی وہ اسکے سامنے کھڑی ہوئی ولیم کا اٹھا سر جھک گیا اب وہ اپنے اسکیچ پر متوجہ تھا اس کے پاس ڈھیر سارے پینسل کلرز تھے پر وہ اسکیچنگ صرف چار کول پینسل سے کرتا تھا۔
”کیا تم مجھے دکھاؤ گے تم نے آج کیا بنایا ہے؟“ وہ اب گھٹنوں پر ہاتھ رکھے جھکی ہوئی تھی۔ وہ سیدھا ہو بیٹھا اور پھر اسکیچ اٹھا کر سلینا کو دے دیا۔ وہ اب اسکیچ کو تھامے کھڑی تھی۔
اسکیچ واضح نہیں تھا پر سمجھا جا سکتا تھا۔ ایک شخص تھا جسے زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔ موٹی موٹی زنجیروں سے۔ اسکے سبھی اسکیچ تقریباً ایسے ہی ہوتے تھے۔ کوئی ایسا شخص جو بہت تکلیف میں ہو جو کہیں قید ہو۔
”ویری نائس!“ وہ پھر سے مسکرائی۔ ”تو کیا اب ہم سیشن شروع کریں؟؟“ اسکیچ کو گول میز پر کینڈلز کے قریب رکھتے پر وہ پیار سے بولی۔ ولیم کچھ نہیں بولا وہ کسی روبوٹ کی طرح کھڑا ہوا اور عقب میں رکھے سفید صوفوں میں سے ایک پر ٹک گیا۔ وہ بہت پیارا بچہ تھا جسے دیکھ کر ہی اس پر پیار آنے لگتا۔
”پھر سے سپنا دیکھا۔۔؟؟“ سلینا نباتاتی رنگ کے صوفے پر ٹک گئی۔ ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ مہارت سے بیٹھی تھی۔ اسکی سڈول پنڈلیاں واضح تھیں۔ اسکے سوال پر ولیم نے نفی میں سر ہلایا۔
”حقیقت میں دیکھا؟ کیا دیکھا؟“ اگلا سوال ابھرا۔ ولیم نے ہاتھ بڑھا کر میز پر رکھے اسکیچ کی طرف اشارہ کیا۔ اسکے عقب میں ڈوبتا سورج تھا اور اسی سورج کی کرنیں سلینا کے چہرے سے ٹکرا کر پلٹ رہی تھیں۔ یعنی اس نے خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں کچھ دیکھا۔
”میں نے سنا کل تم اپنے گھر کے تہہ خانے میں پائے گئے تھے؟؟ تم وہاں کیا لینے گئے تھے ولیم؟؟“ وہ اسے پچکار رہی تھی۔
جبکہ ولیم اب اپنے دونوں ہاتھ مسل رہا تھا۔ ںےچینی اور اضطراب سے۔ چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔ وہ آوازیں اسکی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ کل رات بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ اپنے اور جارج کے مشترکہ کمرے میں سویا ہوا تھا۔ لکڑی کے مسہری نما پلنگ جن کے چاروں جانب سفید پردے لٹک رہے تھے اور کمرے میں دو مسہریوں کے علاوہ دیوار میں نقب لکڑی کی الماریاں تھیں۔ دونوں مسہریوں کے اطراف میں رکھے لکڑی کے میزوں پر لیمپ کے علاوہ مشعلیں رکھی تھیں۔
موسم خراب ہونے کی صورت میں جب بجلی بند ہوجاتی تھی جب ان مشعلوں کو جلایا جاتا تھا۔ تیل پر جلنے والی یہ لکڑی کی مشعلیں دیکھنے میں کافی خوبصورت تھیں۔
رات کے اس پہر کافی سکون تھا۔ وہ دونوں اپنے اپنے نرم گداز بستروں میں لیٹے تھے۔ کمرے میں موجود جہاز سائز کھڑکی بند تھی جبکہ پردے سرکے ہوئے تھے اور پورے چاند کی رات تابناک تھی۔ چاند کی نیلی روشنی کھڑکی کے شیشوں سے منعکس ہوتی ولیم کے وجود سے ٹکرا کر پلٹ رہی تھی۔ اس کا وجود کسی سفید ہالے میں مقید نظر آتا تھا۔ سفید بستر میں ہلکے نیلے رنگ کے شب خوابی کے لباس میں ولیم اس وقت گہری نیند سویا ہوا تھا۔
”جانے دو۔۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔“
اچانک ایک زوردار آواز ابھری اور ولیم نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کئی لمحے وہ یونہی ساکت لیٹا رہا۔ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اُبھرنے والی آواز خواب تھی یا حقیقت۔۔۔!
لیکن اگلے ہی پل اُس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا جب وہ اواز اُسے جاگتے ہوئے سنائی دی۔
”مجھے جانا ہے۔“ کسی نے درد سے التجا کی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمرے کی لائٹ بند تھی۔ مشعلیں بھی۔ مدھم روشنی والا ایک لیمپ جل رہا تھا جبکہ چاند کی روشنی میں پورا کمرہ نہایا ہوا تھا۔ ولیم نے ایک نظر ساتھ والے پلنگ پر سوئے جارج کو دیکھا جو گہری نیند میں تھا پھر وہ بستر سے نیچے اتر آیا اپنا جوتا پہنتے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے تک پہنچا اور زور لگا کر دروازہ کھولا۔
لمبی راہداری تھی جس کے دوسری جانب نینی کا کمرہ تھا۔ نساء انکے ساتھ ہی سوتی تھی۔داہنے جانب راہداری کے آخر میں بنی کھڑکی پر لگے سفید پردے ہوا سے ہل رہے تھے۔ شاید کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ جبکہ دوسری جانب کھلا راستہ تھا۔ ولیم نے کمرے سے ذرا سا سر نکال کر باہر جھانکا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ راہداری میں لگے برقی قمقمے روشن تھے۔ وہ اب دھڑکتے دل کے ساتھ اس آواز کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر وہ کمرے سے نکل کر بائیں جانب چل پڑا۔ آواز مسلسل آرہی تھی۔ وہ تیز تیز چلنے لگا راہداری سے نکل کر وہ سیڑھیوں کی جانب آیا اور پھر سیڑھیاں اترنے لگا۔ سیڑھیاں اترتے وہ نیچے آیا۔ تہہ خانے کے دروازے پر۔ ہاں وہ آواز اندر سے آرہی تھی۔ اس نے کان لگا کر سننا چاہا اور پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔
کچھ دیر یونہی کھڑا تھا پر وہ آواز اسے اپنی اور بلا رہی تھی پھر اس نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا۔ نیچے سیڑھیاں تھیں۔ اندھیرا تھا۔ اس نے گردن گھما کر لاؤنج میں دیکھا۔ میز پر رکھی مشعل نظر آئی۔ وہ بھاگتے ہوئے مشعل اٹھالیا اور پھر اسے جلاتے ہوئے سیڑھیاں اترتا نیچے جانے لگا۔
آواز اب اور واضح ہوگئی۔ وہ سیڑھیاں اترتے نیچے آیا۔ اور مشعل کو تھامے آگے بڑھنے لگا۔ کاٹھ کباڑ جانے کیا کیا پڑا تھا اور پھر ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ سنسنی سی پورے وجود میں دوڑ گئی۔ زنجیر کے ہلنے کی آواز ابھری عین اسکے عقب سے۔ وہ کئی لمحے یونہی کھڑا رہا۔بت بنے۔ حلق خشک ہوگیا۔ خوف سے چہرہ سفید پڑنے لگا۔ ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ دھیرے سے پلٹا اور اگلے ہی پل اسکی آنکھیں وحشت سے پھٹ گئیں۔
سامنے ہی ایک لمبا تڑنگا وجود دیوار سے بندھا ہوا۔
”مجھے جانے دو خدا کا واسطہ ہے“ ولیم کو دیکھتے ہی وہ بےحال سا بولا۔ اسکے جسم پر جگہ جگہ زخم تھے۔ کپڑے خون سے تر۔ بال بڑھے ہوئے۔ عجیب سا حلیہ! اگلے ہی پل ولیم کے ہاتھ سے مشعل چھوٹ کر نیچے گرگئی۔ وہ پوری وقت سے چلایا۔ چلاتا رہا۔یہاں تک کہ جوزف پیلس اسکی چیخوں سے گونج اٹھا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ بےہوش ہو کر چکا تھا۔
”تم مجھے بتاؤ گے تو میری تمہاری ہیلپ کروں گی۔“ وہ اسے بولنے پر اکسا رہی تھی۔ سلینا کی آواز پر وہ چونک کر رات والے واقعے سے باہر آیا۔ آنکھوں میں اب تک وحشت تھی۔
وہ بولنے کے لیے پر تولنے لگا۔
مسٹر جوزف کو دس منٹ لگے تھے اسے پورے پیلس میں ڈھونڈنے اور پھر تہہ خانے تک پہنچنے میں جہاں وہ بےہوش ملا تھا۔
”میں نے دیکھا وہاں کوئی تھا۔ وہاں نیچے زنجیروں سے کسی کو باندھا گیا تھا۔ وہ چیخ رہا تھا چلا رہا تھا۔ اسے ہیلپ چاہیے تھی۔“
دو لائنوں کے اس جملے میں ولیم کا سارا خون نچڑ کر چہرے پر آ گیا۔ ٹھوڑی گردن سے جالگی۔ سلینا تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ اس بچے کو سمجھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی جسکا پچھلے دو سالوں سے علاج چل رہا تھا۔ اسے ہیلوسینشنز ہوتے تھے۔ بصری، سماعتی اور لمسی ہیلوسینشنز۔ وہ ایسی چیزیں دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا تھا جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
”ولیم۔۔۔“ سلینا نے بے ساختہ اسے پکارہ۔ وہ رو دینے کو تھا۔
”تم ایک سمجھدار بچے ہو ولیم! سچائی اور سپنوں میں فرق کرنا سیکھو۔“ سلینا اُسکے رونے پر پہلو بدل کر رہ گئی۔ اسے ولیم بہت پسند تھا پر ساری کوششوں کے باوجود اُسکی یہ بیماری بڑھتی جارہی تھی۔
”مسٹر جوزف تمہیں صبح تہہ خانے میں دوبارہ لے کر گئے تھے لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ ہے ناں؟؟“ ولیم کی تصدیق چاہی جبکہ وہ اپنے موٹے موٹے آنسوں پیتا صرف سر ہلارہا تھا۔ مسٹر جوزف اُسے دن میں تہہ خانے میں واپس لے کر گئے تھے پر وہاں کوئی کوئی نہیں تھا۔
وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی پھر آوازیں مدھم ہوگئیں سرگوشی نما اور پھر وہ ختم ہونے لگیں وقت تیزی سے بھاگ رہا تھا جوزف پیلس کی جانب جہاں وہ رہتا تھا۔
پانچ سال کا تھا ولیم جب پہلی بار اسے جوزف پیلس لایا گیا۔ مسٹر جوزف کی انگلی پکڑے وہ عالیشان محل میں داخل ہوا۔ اسکے استقبال کے لیے وہاں نینی تھی، اور اسکے سوتیلے بہن بھائی جارج اور نساء بھی۔
مسٹر جوزف پیٹرسن نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی شادی روزینا سے جو لڑکپن سے ان سے منسوب تھی۔ خاندان کی مرضی کے مطابق مسٹر جوزف نے یہ شادی بنا چوں چراں کرلی تھی کیونکہ روزینا ایک خوبصورت لڑکی تھی اور مسٹر جوزف کو یوں بھی اپنے خاندان کی روایات بہت عزیز تھیں۔
روزینا سے مسٹر جوزف کے دو بچے تھے بڑا بیٹا جارج اور چھوٹی بیٹی نساء!
نساء کی پیدائش سے پہلے ہی مسٹر جوزف کی زندگی میں وہ آگئی، جس کے آنے بعد سب تباہ ہوگیا۔ افق نامی وہ لڑکی پاکستان سے تھی۔ وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور مسٹر جوزف ان دنوں فلم اور ڈائریکشن کے آخری سال میں تھے۔ وہ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد اپنے باپ کا اسٹار لائٹ پروڈکشن ہاؤس سنبھالنا چاہتے تھے جو سالوں سے کام کر رہا تھا۔
اور یونیورسٹی میں ہی مسٹر جوزف کی ملاقات افق سے ہوئی وہ فیشن ڈیزائننگ کے لیے آئی تھی۔
حادثاتی طور پر ہونے والی ایک ملاقات کے بعد وہ قریب ہوگئے۔ افق مسٹر جوزف سے بےپناہ محبت کرنے لگی۔ وہ اسکی سحرانگیز شخصیت کے جانب کسی مقناطیس کی طرح کھنچتی چلی گئی۔ پہل بھی افق کی جانب سے ہوئی تھی۔
تب جارج ایک سال کا تھا جب مسٹر جوزف نے افق سے دوسری شادی کرلی۔ افق کے گھر والے اُس سے تمام رشتے ناطے ختم کر چکے تھے اور افق کو شاید اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔
لیکن شادی کے کچھ ماہ بعد ہی افق بدلنا شروع ہوگئی۔ وہ حاملہ تھی کہ اچانک ڈر کر راتوں کو اٹھ جاتی۔ مسٹر جوزف دونوں بیویوں کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کر رہے تھے جب افق نے اچانک ہی مسٹر جوزف سے طلاق کا مطالبہ کرلیا۔ وہ انکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ مسٹر جوزف نے بہت سمجھایا پر وہ نہیں مانی اور پھر ایک دن وہ غائب ہوگئی۔ اس دوران مسٹر جوزف کے ہاں نساء پیدا ہوئی وہ جارج سے چار سال چھوٹی تھی اور اسکی پیدائش کے دوران ہونے والی کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے روزینا کی وفات ہوگئی۔ یوں مسٹر جوزف اکیلا رہ گیا۔ افق کے غائب ہونے کے پانچ سال بعد مسٹر جوزف کو فون آیا۔ افق ایک اپارٹمنٹ میں مردہ پائی گئی۔ افق اور جوزف کا ایک بیٹا تھا جو جارج سے دو سال چھوٹا جبکہ نساء سے دو سال بڑھا تھا۔ وہ درمیانہ بچہ تھا۔
وہ پانچ سال کا تھا جب اسکی ماں نے خودکشی کرلی اور وہ ایسا بچہ تھا جو بچپن میں ہی ذہنی مسائل کا شکار ہوگیا۔
نینی جارج اور نساء سب نے اسے خوش دلی سے اپنایا۔ اس محل جیسے گھر میں اس کی دلچسپی کی بہت ساری چیزیں تھیں پر وہ جلد گھلنے ملنے والا بچہ نہیں تھا۔ اسے کافی وقت لگا جارج اور نساء کے ساتھ گھلنے ملنے میں۔
مسٹر جوزف کو وہ بہت پیارا تھا وہ اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتے اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتے پر ولیم کا زیادہ وقت خاموشی کی نذر ہو جاتا اور پھر اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب وہ سات سال کا تھا۔ اسے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ عجیب و غریب خواب نظر آنے لگے۔ وہ ڈر کر اٹھ جاتا چیختا چلاتا۔ نینی اسے اپنی آغوش میں چھپا لیتی پر وہ برے خواب اسکے ساتھی بن گئے۔ وہ کبھی نہیں گئے۔
کوئی اسے ولی کہہ کر پکارتا تھا۔ ولی کون تھا وہ نہیں جانتا تھا پر یہ پکار اجنبی نہیں تھی۔ اس گھر میں اس کی ماں کی کوئی تصویر نہیں تھی کوئی اسکا ذکر نہیں کرتا تھا۔ ولیم کو آہستہ آہستہ سب بھولنے لگا پر وہ آواز، اس آواز نے کبھی پیچھا نہیں چھوڑا اور یاد رہا تو اتنا کہ اسکی ماں نے خودکشی کرلی تھی۔
✿••✿••✿••✿
پتا ہے اکثر والدین اپنے بچوں کو دوسرے ملک تو کیا دوسرے شہر بھی پڑھنے بھیجنے کو راضی نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے؟؟
انہیں لگتا ہے بچے پردیس جاکر ویسے نہیں رہتے جیسے وہ جاتے ہیں۔ وہ بدل جاتے ہیں۔ وہ خود غرض بن جاتے ہیں۔ماں باپ سے دور ہو جاتے ہیں۔ انہیں کوئی آسیب لپیٹ لیتا ہے اور نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا آسیب کیا ہے بھلا؟؟ محبت۔۔۔۔۔!!
وہ جذبہ جو ہر دل پر مختلف طریقے سے وارد ہوتا ہے، کہیں خوشنما بہار کی طرح جو اجڑے ویران دل کو پھر سے آباد کر دیتا ہے۔ کہیں کسی آزمائش کی طرح جو ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیتی ہے اور یہ کبھی کبھی کسی عذاب کی طرح نازل ہوتی ہے پتا ہے کب؟
جب ہم اُسے بھول جاتے ہیں جس نے یہ جذبہ پیدا کیا ہے جب ہم اُس سے محبت نہیں کرتے جس کا یہ حق ہے۔ جب ہم محبت میں اندھے بہرے اور گونگے ہو جاتے ہیں جب ہمیں محبوب کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ تب یہ محبت بس عذاب ہوتی ہے۔ جسے پالینے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ محبت لاحاصل ہی اچھی تھی۔
اور ایسی ہی محبت کے زیر اثر وہ تھی۔ حسین ذہین اور فطین لڑکی جو آنکھوں میں ڈھیروں خواب سجا کر آئی تھی۔ جو اپنے والدین سے ڈھیروں وعدے کرنے آئی تھی۔ وہ افق اورنگزیب تھی۔
جو محبت کی تاب نہ لا سکی اور اس نے اپنے حصے میں صرف خسارے سمیٹے۔۔۔۔۔بدلے میں اسے کیا ملا؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
”ہیلو بابا۔۔۔؟؟“ وہ فون کان سے لگائے کھڑی تھی۔
”افق۔۔۔؟؟“ دوسری جانب سے پکارہ گیا۔ لہجے میں بےیقینی کے ساتھ ساتھ تڑپ بھی تھی۔
”افق واپس آجاؤ۔“ وہ اسکے بابا تھے اسے پکار رہے تھے۔ اس پکار پر افق اورنگزیب اپنا سب کچھ لٹا سکتی تھی پر آنکھوں کے سامنے کھڑا وہ شخص اب اُسکے اور اُسکے باپ کے درمیان تھا۔ جوزف پیٹرسن اسے یونیورسٹی میں ملا۔ وہ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی کسی تقریب کی تیاری کر رہے تھے۔ اس تقریب میں انہیں ایک پلے کرنا تھا جسے لیڈ جوزف کر رہا تھا۔ تیکھے نین نقش والا اونچا لمبا جوزف اپنی ریزور شخصیت کی وجہ سے افق کو پہلی ہی ملاقات میں اچھا لگا۔ افق کا ابھی پہلا سال تھا جبکہ جوزف کا آخری۔ وہ سینئر تھا اور اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے وہ کافی جانا جاتا تھا۔ وہ خوابوں کو حقیقت بنانے پر یقین رکھتا تھا۔ وہی خواب جو افق نے بھی دیکھے تھے۔
جوزف شادی شدہ ہونے کے باوجود افق کی جانب کھنچنے لگا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سنگ ہنسنے مسکرانے لگے اور تقریب کے آخر تک وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ بےتحاشہ محبت جہاں ایک دوسرے کے بنا جینا محال لگتا ہے۔
”میری یونیورسٹی ختم ہونے والی ہے میں جلد چلا جاؤں گا۔“ ایک دن باتوں ہی باتوں میں جوزف نے اسے بتایا۔ وہ دونوں کیفے ٹیریا میں تھے اور اس دن افق کو اپنا دل رکتا محسوس ہوا۔ وہ شخص کب اتنا عزیز ہوا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔
”ملنے نہیں آؤ گے؟؟“ وہ اب پرامید نظروں سے اسے تکنے لگی۔
”نہیں۔“ جوزف نے کندھے ہلا دیے اور افق کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔ وہ اٹھ کر چلی گئی۔ جوزف نے اسے نہیں روکا۔ اس رات وہ سو نہیں پائی خود سے لڑتی رہی۔ وہ عام لڑکی نہیں تھی۔ وہ سات سمندر پار آئی تھی۔ اسے سات سمندر پار بلاوجہ نہیں بھیج دیا گیا تھا۔ اسکے بڑے بھائی کو اسکے باپ کو اس پر بھروسہ تھا۔ وہ ان کا مان نہیں توڑ سکتی تھی لیکن جوزف پیٹرسن کسی آسیب کی طرح چمٹ گیا۔ وہ دو دن یونیورسٹی نہیں گئی وہ اس سے نہیں ملنا چاہتی تھی پر آنکھیں اسے دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔ تیسرے دن وہ یونیورسٹی گئی تو اسے سب سے پہلے جوزف ملا۔ اسکی آنکھیں سرخ انگارہ تھیں۔ اسکی حالت بھی افق سے الگ نہیں تھی۔ دونوں طرف محبت کی سلگائی آگ برابر بھڑک رہی تھی جو ساتھ ساتھ دونوں کو جلا رہی تھی۔
”کہاں تھی تم؟؟“ وہ ضبط کرنے کے باوجود چلا اٹھا اور پھر کچھ دیر بعد وہ دونوں اسی کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے جہاں سے دو دن پہلے افق اٹھ کر گئی تھی۔
”میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتی جوزف۔“ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جوزف نے اسے بتادیا تھا کہ وہ شادی شدہ تھا۔ وہ اس سے دوسری شادی کرنے کو تیار تھا پر وہ عیسائی تھا اور کسی صورت اپنے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ افق نے بہت سوچا۔ اس سے دور رہنے کی کوشش کی پر جان نکلتے محسوس ہوتی تھی۔
بالآخر دل کے ہاتھوں ہار مان کر اس نے اپنے بابا کو سب بتانے کا فیصلہ کیا۔ توقع کے عین مطابق وہ بھڑک اٹھے۔ اسے واپس آنے کا کہا پر وہ نہیں مانی۔ انہیں دو دن سوچنے کا وقت دے کر وہ آج دوبارہ انہیں فون ملائے کھڑی تھی۔
”افق خدا کا واسطہ ہے واپس آجاؤ یہ ظلم نہ کرو۔“ وہ منت کرنے لگے۔
”میں نے کوشش کی بابا بہت کوشش کی پر دل نہیں مانتا۔۔“ وہ آنسوں پیتے بولی۔
”افق میرا سر جھک جائے گا۔“ فون کے دوسری جانب سے ابھرتی آواز خوفزدہ تھی۔ آنے والے وقت سے۔ برے اندیشے انہیں ڈس رہے تھے۔
”بابا آپ پلیز مان جائیں۔ جوزف اچھا انسان ہے وہ مجھے بہت خوش رکھے گا۔“ وہ انہیں اپنی اور جوزف کی شادی کے لیے منانا چاہتی تھی۔وہ انکی رضامندی چاہتی تھی۔ کئی لمحے خاموشی چھائی رہی۔
”ٹھیک ہے۔ میں تمہارا نکاح اس سے کروادوں گا اسے کہو مسلمان ہو کر جلد تمہارے ساتھ یہاں آئے۔“ پہلی بات سننے پر جہاں افق کا دل دھڑکنے لگا وہیں دوسری بات پر وہ دل مسوس کر رہ گئی۔
جوزف اسے سب دینے کو تیار تھا وہ بھی خاندان کے خلاف جا کر اس سے شادی کر رہا تھا پر وہ مسلمان نہیں ہو سکتا تھا۔
”بابا وہ اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا۔۔“ وہ دھیرے سے بولی۔ آنسوں آنکھوں سے بہہ جانے کو تیار تھے۔
”اور تم افق؟؟“
”میں اسے نہیں چھوڑ سکتی بابا۔۔۔“ آنسو گال پر پھسلتا چلا گیا۔
”افق۔۔۔؟؟“ کیا کچھ نہیں تھا اس ایک پکار میں پر افق کچھ محسوس کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس نے اپنی حسیات کو مردہ کرلیا تھا۔ دماغ کو بند اور آنکھوں پر محبت نے ویسے ہی پٹی باندھ دی تھی۔
”تم اللّٰہ کو چھوڑ دو گی افق؟ میں نے تمہیں یہ تو نہیں سکھایا تھا بچے۔۔“ انکے لہجے میں تاسف ہی تاسف تھا۔ افسوس تھا۔ دکھ تھا۔ اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے۔ وہ اولاد جو باغی ہوجاتی ہے۔ وہ اولاد جو سب بھول جاتی ہے۔
”نہیں میں اللّٰہ کو نہیں چھوڑ رہی بابا میں بس جوزف کو اپنا رہی ہون۔ ویسے ہی جیسا وہ ہے۔ یہی محبت کا تقاضا ہے۔“
کئی لمحے پھر سے خاموشی چھائی رہی۔ افق کا دل ڈر رہا تھا فیصلہ جو بھی ہوتا وہ جانتی تھی جوزف کو پانے کے بدلے وہ سب کھونے جارہی تھی۔
”کبھی پلٹ کر مت آنا افق۔“ بند ہوگیا وہ فون تھامے کھڑی رہی جوزف سامنے تھا۔ وہ اس سے شادی کے لیے آزاد تھی لیکن اس پل وہ فیصلہ نہیں کر پائی اس نے گھاٹے کا سودا کیا تھا یا فائدے کا؟
ہاں انسان خسارے ہی سمیٹتا ہے۔ اس نے کبھی فائدے کا سودا کیا ہی نہیں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
صبح کے اس پہر جوزف پیلس میں کافی گہما گہمی تھی۔ ہفتے کے لمبے اختتام کے بعد آج ہفتے کا پہلا دن تھا۔ نیا ہفتہ شروع ہوچکا تھا۔ ناشتہ کیا جا چکا تھا۔ بچے سکول جانے کے لیے تیار تھے۔ مسٹر جوزف کی گاڑی پیلس کے باہر تیار کھڑی تھی۔ ڈرائیور ان کا انتظار کر رہا تھا۔ مسٹر جوزف تینوں بچوں کو صبح اسکول چھوڑنے کے بعد اپنے اسٹوڈیو جاتے تھے۔ اس وقت جارج اور نساء اسکول کا یونیفارم پہنے لاؤنج میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ نساء نے سیاہ اسکرٹ پر سفید شرٹ اور اسکے اوپر نیلا کوٹ پہن رکھا تھا جس پر اسکول کا لوگو لگا تھا جبکہ جارج سیاہ پینٹ کے ساتھ سفید شرٹ اور نیلے کوٹ میں ملبوس تھا۔ دونوں کے گلے میں لٹکتی ٹائی کوٹ کے ہم رنگ تھی۔ آج ولیم ابھی تک نیچے نہیں آیا تھا۔ نینی ان کے دوپہر کے کھانے کے ڈبے ملازم کو پکڑا رہی تھیں۔ اسی لمحے مسٹر جوزف سیڑھیوں پر وارد ہوئے۔ وہ کافی تیزی میں تھے اور پھر ٹھٹھک کر رک گئے۔
”ولیم کہاں ہے؟؟“ بے ساختہ پوچھا گیا۔ نساء اور جارج نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیئے۔ مسٹر جوزف کی پیشانی پر شکنیں اُبھریں اور اسکے ہی پل وہ واپس پلٹ گئے اُنکا رخ ولیم اور جارج کے مشترکہ کمرے کی جانب تھا۔
تہہ خانے والے حادثے کو بیتے ایک سال ہونے والا تھا۔ کچھ دنوں بعد ولیم کی دسویں سالگرہ تھی۔ وہ قد کاٹھ میں جارج کی طرح تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ کمرے کے باہر پہنچ کر مسٹر جوزف نے لکڑی کے دیوقامت دروازے پر دستک دی۔
” آجائیں نینی۔۔۔“ اندر سے ولیم کی آواز ابھری۔ اسے یقین تھا نیچے نہ آنے پر نینی اس سے ملنے ضرور آئے گی پر اگلے ہی لمحے وہ حیران رہ گیا جب مسٹر جوزف کا وجود دروازے میں نمودار ہوا۔
”کیا بات ہے ولیم اسکول نہیں جانا آج؟؟“ وہ براہ راست اسی سے مخاطب تھے۔ ولیم اپنے بستر پر بیٹھا رہا۔ سیاہ پینٹ اور سفید شرٹ پہنے۔ اسکا کوٹ پلنگ پر رکھا تھا۔ گہری کتھئی آنکھیں ایک پل کو اٹھیں اور مسٹر جوزف کی نگاہوں سے ٹکرا کر پلٹ گئیں۔ اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جسے اس نے برق رفتاری سے اپنے پیچھے چھپا لیا۔
”نہیں۔ مجھے اسکول نہیں جانا۔“ وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔
”وجہ۔۔؟؟“ مسٹر جوزف اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہے تھے۔ وہ الجھا ہوا تھا۔ الجھا ہوا تو ہمیشہ ہی رہتا تھا پر اس نے کبھی کسی کام منع نہیں کیا تھا۔ یہ اس کا پہلا انکار تھا۔
”ولیم کیا میں وجہ جان سکتا ہوں؟؟“ اس کی خاموشی پر مسٹر جوزف نے کلائی میں بندھی گھڑی پر سرسراتی نظر ڈالتے پوچھا۔ اسکول کا وقت ہوچکا تھا۔ وہ دو قدم بڑھا کر اندر داخل ہوئے۔
”میں ایڈنبرا اکیڈمی میں نہیں پڑھنا چاہتا۔“ اسکے جواب پر مسٹر جوزف نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر مزید قدم بڑھاتے ہوئے اسکے پلنگ پر ٹک بیٹھ گئے۔ ایک ٹانگ اوپر تھی ایک نیچے۔ خوشبوؤں میں رچا بسا جوزف پیٹرسن اگر کسی کے پاس بیٹھ جاتا تو اسکے ہوش اڑ جاتے تھے اور اس وقت ولیم نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ مسٹر جوزف اپنے تمام بچوں سے بےپناہ محبت کرتے تھے پر انکے اور بچوں کے درمیان باقی والدین اور بچوں والا رشتہ نہیں تھا۔ ایک سرد سی دیوار تھی۔ ان دیکھی جھجھک تھی۔ وہ بے ساختہ مسٹر جوزف سے نہین لپٹتے تھے اور مسٹر جوزف کے انداز میں کبھی بھی والہانہ پن نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے بچے مسٹر جوزف سے زیادہ نینی سے جڑے تھے۔
”اور کیا میں جان سکتا ہوں تم ایڈنبرا کے سب سے بہترین اسکول میں کیوں نہیں پڑھنا چاہتے۔۔؟؟“ اس وقت ولیم کی ٹھوڑی گردن سے چپکی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا مسٹر جوزف وہاں سے جلد از جلد چلے جائیں۔
”ولیم۔۔۔؟؟“ اسکی خاموشی پر مسٹر جوزف نے دوبارہ پکارہ۔
”مجھے نینی سے بات کرنی ہے۔۔“ وہ سرخ ٹماٹر چہرے کے ساتھ بولا۔ مسٹر جوزف نے سیدھا ہوتے گہرا سانس لیا۔ دوسری ٹانگ نیچے کرکے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ جمالیے۔ انکے لمبے ترشے ہاتھ کس قدر خوبصورت تھے۔ ولیم نے کن انکھیوں سے ان ہاتھوں کو دیکھا وہ اپنے باپ کے ان ہاتھوں کو چھونا چاہتا تھا پر ان دیکھی دیوار حائل تھی۔
وہ محسوس کرنا چاہتا تھا اس لمس کو جو باپ کا ہوتا ہے۔ اس شفقت، اس محبت کو پر وہ یونہی بیٹھا رہا اور پھر دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ نینی دروازے میں کھڑی نظر آئیں۔
سیاہ رنگ کے پاؤں کو چھوتے اپنے ازلی گاؤن میں۔ نینی ایک حبشی خاتون تھیں۔ سیاہ رنگت، چمکتے دانت، بھرے بھرے پھیلے ہوئے نقوش، نہایت گھنگھریالے بال جو سر پر کسی ٹوپی کی مانند سجے تھے۔انکا جسم وزنی تھا۔ لیکن ان دنوں نینی کسی حد تک جوان تھیں وہ بنا کسی سہارے کے سیڑھیاں اتر چڑھ لیتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کو عموماً سیاہ فاموں سے نفرت تھی لیکن نینی کو دیکھتے ہی ان پر پیار آتا تھا۔ انکی آغوش میں سکون تھا۔ محبت تھی۔ اس لیے پیلس کے سبھی ملازموں کے ساتھ ساتھ تینوں بچے بھی انہی سے ساری باتیں کرتے تھے۔ بہت سالوں سے انکا خاندان والوں سے مسٹر جوزف کے خاندان سے جڑا رہا تھا۔
”اپ جائیے میں ولیم سے بات کرتی ہوں۔۔“ نینی نے پریشان بیٹھے جوزف سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے لیکن وہ اپنی تمام خوشبوئیں چھوڑ گئے تھے۔ انکی سحرانگیز شخصیت کا اثر ان کے جانے بعد بھی قائم رہتا تھا۔
”ولیم میرے بچے کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ۔۔“ نینی نے اسکے قریب بیٹھتے اسے خود سے لگایا اور ولیم ان سے لپٹ گیا۔ تیزی سے دھڑکتا دل پرسکون ہونے لگا۔ اسکے ذہن میں کل والا واقعہ پوری تابناکی سے گھوم گیا۔
یہ پچھلے دن کی بات تھی۔ مسٹر جوزف اور نینی بچوں کو گھمانے لے گئے تھے۔ مسٹر جوزف ملک کی جانی مانی شخصیت تھے اس لیے وہ عوامی جگہوں پر کم ہی نکلتے تھے۔ جبکہ نینی ہی زیادہ تر بچوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ کل اتوار تھا۔ وہ سب شام کے پہر پورتوبیلو ساحل پر گھومنے گئے۔ یہ ساحل ایڈنبرا کا مشہور ساحل سمندر ہے۔ بچے ساحل پر گھومنا چاہتے تھے۔ کچھ وقت وہاں ٹھہرنے کے بعد مسٹر جوزف کو ایک اہم میٹنگ کے لیے نکلنا پڑا وہ گارڈز کو نینی اور بچوں کے پاس چھوڑ گئے۔ یوں بھی انکی موجودگی میں بچے زیادہ اچھل کود نہیں کرتے تھے۔ انکے جانے کے بعد تینوں بچے فٹبال لیے ریتلے ساحل پر کھیل رہے تھے۔ جارج نے فٹبال کو زور دار لات ماری تو فٹبال پکڑنے ولیم بھاگا۔ وہ بھاگتے ہوئے ریت پر بیٹھے ایک لڑکے کے قریب سے گزرا اور پھر ٹھٹھک کر رک گیا۔ وہ کوئی پندرہ سالہ لڑکا تھا جو ہاتھ میں لکڑی کا باریک تنکا پکڑے ساحل پر کچھ لکھ رہا تھا۔ ولیم اب بھاگتے فٹبال اور اس لڑکے کے درمیان کھڑا تھا۔ وہ کیوں رک گیا تھا وہ خود نہیں جانتا تھا۔
”ولیم جلدی آؤ۔۔“ جارج اور نساء اسے پکارنے لگے۔ ولیم نے ایک نظر انہیں دیکھا پھر اس لڑکے کو اور تیسری نظر اس نے فٹبال پر ڈالی۔ اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے فٹبال کی جانب بھاگا۔ قریب پہنچ کر اس نے زوردار کک فٹبال کو ماری اور اسے جارج اور نساء کی جانب واپس بھیج دیا۔
لوگ ساحل سمندر پر لیتے ڈوبتے سورج کا مزہ لے رہے تھے۔ بچے اپنے پالتوں جانوروں کے ساتھ اچھل کود کر رہے تھے۔ منچلے جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ لیے ہمیشہ ساتھ رہنے کے وعدے کر رہے تھے۔ ایسے میں وہ لڑکا ریت پر جھکا کچھ لکھ رہا تھا۔ ولیم اب اسکے سر پر کھڑا تھا۔ جارج اور نساء کو وہ آنے کا اشارہ کر چکا تھا جبکہ نینی تمام بچوں پر نظر رکھے ہوئی تھیں۔
”ایم سوری مام۔۔۔“ ولیم نے ذرا سا جھکتے ہوئے لڑکے کے لکھے لفظوں کو پڑھنا چاہا اور پھر وہ حیران ہوا۔ لہریں بار بار آ کر ان لفظوں کو مٹا رہی تھیں اور وہ بار بار لکھ رہا تھا۔ پھر وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا اب اسکا رخ سمندر کی جانب تھا وہ کسی روبوٹ کی طرح چلتا رہا اور پل کے ہزارویں حصے میں شاید ولیم جان چکا تھا وہ کیا کرنے جارہا تھا۔ وہ کئی ثانیے اسے جاتے دیکھتا رہا۔
”ولی میں چاہتی ہوں تم مددگار بنو۔ یاد رکھو جو مدد نہیں کرتا وہ اپنے پروردگار کو بھول چکا ہے۔“ وہ نسوانی جانی پہچانی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی اور ولیم کے وجود میں حرکت پڑ گئی۔ وہ اس لڑکے کے پیچھے چل پڑا۔ لڑکا بےخوف سا گہرائی کی جانب بڑھ رہا تھا۔
مسٹر جوزف کا فون تھا نینی کی نظر پل بھر کو ولیم سے ہٹی اور ولیم نے خود کو زورآور لہروں سے لڑتے پایا۔ اسکا قد چھوٹا تھا۔ وہ دھڑ تک ڈوب گیا اگر کوئی بڑی لہر آتی تو یقیناً وہ بہہ جاتا جبکہ وہ لڑکا لمبا تھا اس لیے آسانی سے چل رہا تھا۔ ولیم کا چہرہ خوفزدہ تھا۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔ اپنی موت سے زیادہ اس لڑکے کی موت سے جو اسے کے آگے چل رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی پوری ہمت جٹائی اور تیزی سے آگے بڑھ کر لڑکے کا ہاتھ تھام لیا۔ لڑکا جھٹکے سے مڑا وہ اپنے پیچھے کھڑے تقریباً ڈوب چکے ولیم کو دیکھنے لگا جو ایڑھیاں اونچی کئے اپنا چہرہ پانی سے باہر نکالے ہوئے تھا۔
”تم مر نہیں سکتے۔۔؟؟“ سرخ ٹماٹر چہرہ لیے کتھئی آنکھوں والا ولیم گہری سانسیں لیتے بولا۔
”چھوڑو مجھے۔۔“
جبکہ ولیم نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر اپنی گرفت مضبوط کردی۔
”تم ایسے نہیں مر سکتے۔۔“ ولیم اب اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے اپنی جانب کھینچنے لگا۔
”کون ہو تم چھوڑو مجھے۔۔“ لڑکے کو اسکی مداخلت بری لگی۔
”پلیز واپس چلو۔۔“ ولیم رودینے کو تھا۔ اس کی ماں نے خودکشی کی تھی۔ خود کشی کرنے والے گہرے زخم دے جاتے ہیں وہ جانتا تھا۔ اور اس پل اسکا ننھا ذہن بس چاہتا تھا کہ وہ لڑکا یہ کام نہ کرے۔ وہ اپنی جان نہ لے۔
”نینی۔۔“ اس نے جب دیکھا وہ لڑکا اپنا بازو چھڑا لینے کے درپے تھا تو ولیم نے بے ساختہ انہیں پکارہ۔ کچھ لوگوں کی نظر اس جانب پڑی جہاں دو لڑکے لہروں سے لڑ رہے تھے۔ نینی کے پیروں سے ایڈنبرا کی زمین نکل گئی۔ گارڈز تیزی سے بھاگے اور کچھ دیر دونوں کو بچا لیا گیا وہ اب کنارے پر تھے۔ ولیم کے گرد جھمگٹا تھا۔ پولیس کو فون کردیا گیا تھا۔ اس لڑکے کو گھیر رکھا تھا کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔
نینی نہیں چاہتی تھیں ولیم یا جوزف کا نام آئے۔ اس لیے وہ بچوں کو لے کر جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتی تھیں۔ ولیم کے گرد انہوں نے اپنی چادر لپیٹ دی۔
”مجھے اس لڑکے سے بات کرنی ہے نینی۔۔“
”ہمیں گھر جانا ہے ولیم۔۔“ وہ اب انہیں تھامے گارڈز کے گھیرے میں گاڑی کی جناب بڑھ رہی تھیں۔ خوف انکے چہرے پر واضح تھا۔ اگر ولیم کو کچھ ہو جاتا تو؟؟ وہ جھرجھری سی لے کر رہ گئیں۔
”پلیز نینی بس پانچ منٹ؟؟“ وہ وہیں جم کر کھڑا ہوگیا اور نینی جو ناچار اسکی بات ماننا پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ اس لڑکے کے قریب بیٹھا تھا۔ جو گھٹنوں میں سر دیے رو رہا تھا۔ اسکی ماں آرہی تھی۔ وہ اپنی ماں کو کیا منہ دکھاتا؟؟ اسکا وجود سسک رہا تھا۔
”تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔“ ولیم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ اپنی عمر کے بچوں کے لحاظ سے کافی ہوشیار تھا۔ شاید بچپن کے اس حادثے نے اسے ایسا بنا دیا تھا یا پھر اسکی ذہنی حالت نے۔
”تو میں اور کیا کروں؟؟ میں فیل ہوگیا۔ پتا ہے میری ماں نے کتنی مشکل سے پیسے اکٹھے کرکے ٹیسٹ کی فیس بھری تھی۔ میں ٹیسٹ میں فیل ہوگیا۔ تم امیر لوگ کبھی کسی غریب کا دکھ نہیں سمجھ سکتے۔ تم جانتے ہو خواب ٹوٹنا کیسا ہوتا ہے؟؟“ وہ گھٹنوں سے سر اٹھا کر دبا دبا سا چلایا۔ آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ وجود ابھی تک ہچکیوں کی زد میں تھا۔ ولیم لب بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ وہ اسکی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تمہارا خواب کیا ہے؟؟“ اس نے اپنا ہاتھ کرنے کے کندھے سے اٹھا لیا۔
”میں امیر لوگوں کی طرح بڑھے اسکول جا کر پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں دی ایڈنبرا اکیڈمی (ایڈنبرا کا سب سے بڑا اور مہنگا سکول) میں پڑھنا چاہتا ہوں میں وہ زندگی جینا چاہتا ہوں جو تم جیتے ہو۔۔“ کتنی تلخی تھی اسکے الفاظ میں ولیم بس اسے یونہی دیکھے گیا۔
”جاؤ یہاں سے چلے جاؤ۔ تم امیر لوگ بس ہم جیسوں کا تماشہ بنا سکتے ہو۔۔“ اس نے پھر سے گھنٹوں میں سر دے لیا۔
”تمہیں جوزف پیلس کا پتا ہے؟؟“
ولیم کے سوال پر لڑکے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ آنکھوں میں الجھن واضح تھی۔
”میں ولیم جوزف ہوں۔ اسٹار لائٹ پروڈکشن ہاؤس کے مالک جوزف پیٹرسن کا بیٹا۔ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔۔“ وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔نیلی آنکھوں والا لڑکا حیرانی سے اسے دیکھتا رہا۔
”تم کل صبح آٹھ بجے جوزف پیلس پہنچ جانا تم جہاں چاہو گے تمہارا ایڈمیشن ہوجائے گا۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نینی کچھ فاصلے پر اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔
”تم مزاق کر رہے ہو نا؟؟“ لڑکا بے یقینی سے بولا۔
”تمہیں لگتا ہے میں نے مزاق میں تمہاری جان بچائی ہے؟؟“ وہ اب ابرو اچکائے تفتیشی انداز میں بولا۔ لڑکے سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔ ولیم چل پڑا۔
”تم چھوٹے ہو تم میری مدد کیسے کرو گے؟؟“ وہ عقب سے بولا۔ ابھی تک حیران تھا۔
”میرا باپ بڑا آدمی ہے وہ تمہاری مدد ضرور کرے گا۔“ وہ تیز تیز چلتا اس سے دور ہوتا گیا۔
”ولیم۔۔“ نینی کی آواز اسے حال میں واپس کھینچ لائی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے پیچھے رکھا کاغذ اٹھایا اور اسے نینی کے سامنے کیا۔ وہ جس کلاس میں تھا اسکے اسکول کی سالانہ فیس تقریباً پندرہ ہزار سے بیس ہزار پاؤنڈز تھی اور یہ اچھی خاصی رقم تھی۔ اس نے سارا حساب لکھ رکھا تھا۔
”یہ کیا ہے۔۔؟؟“ نینی نے وہ کاغذ تھامتے پوچھا۔
”یہ میری سالانہ فیس ہے مجھے سکول نہیں جانا بلکہ مجھے یہ پیسے چاہئیں۔۔“
”لیکن کیوں۔۔؟؟“ نینی نے الجھن زدہ نگاہوں سے دیکھا۔
”اور اسکول نہیں جاؤ گے تو کیا کرو گے؟؟“
”میں سرکاری اسکول جاؤں گا نینی۔۔“ وہ چمکتی آنکھوں سے بولا۔
”پیسے کس لیے چاہئیں؟؟“
”جیکب کے لیے؟؟“
”کون جیکب؟؟“
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر قدم بڑھا کر کھڑکی تک پہنچا اور پردہ کھینچ کر ہٹا دیا۔ پیلس کے حدود کے پار اسے کوئی کھڑا نظر آیا۔ نینی اٹھ کر اسکے پیچھے آ کھڑی ہوئیں۔ پیلس کے باہر جو بھی کھڑا تھا اسکا وجود واضح نہیں تھا۔
”یہ وہی لڑکا ہے جو کل مرنا چاہتا تھا میں چاہتا ہوں میری جگہ یہ میرے اسکول جائے۔“
وہ بولا تو نینی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”یہ کہہ رہے ہو ولیم؟؟“ وہ صحیح معنوں میں پریشان ہوئیں۔
مسٹر جوزف کو کل والے واقعے کا نہیں پتا تھا اور ولیم کسی اجنبی کو یوں گھر بلانا۔ انہیں پتا چلتا تو غضب ہوجاتا۔
”آپ ڈیڈ سے بات کریں۔ مجھے ایسے اسکول نہیں جانا نینی۔۔“ وہ پلٹ کر ان سے لپٹ گیا اپنے بازو انکی کمر کے گرد جمادیے۔
جبکہ نینی حقیقتاً پریشان تھیں۔ ولیم کے سر پر ہاتھ رکھتے انہوں نے دور کھڑے جیکب کو دیکھا جو اس کی بات پر یقین رکھتے وہاں آگیا تھا۔
جوزف کو منانا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ ایسا انسان نہیں تھا جس کے دل میں غریبوں کی بھلائی کا جذبہ ٹوٹ ٹوٹ کر بھرا ہو بلکہ مسٹر جوزف کو تو غریبوں سے ویسے ہی چڑ تھی۔ وہ راہ چلتے غریبوں کی مدد کرنے پر بھروسہ نہیں رکھتے تھے ہاں البتہ وہ نام کی طرح بڑے بڑے ڈونیشنز دیتے تھے جہاں ان کا فائدہ ہوتا۔ جہاں ان کا نام ہوتا۔ انہوں نے گہری سانس خارج کی اور اپنے ذہن میں لائحہ عمل تیار کرنے لگیں۔
اگلے چند منٹوں کے بعد وہ مسٹر جوزف کے سامنے بیٹھی تھیں۔ بچے لاؤنج میں تھے۔ اسکول سے دیر ہوچکی تھی۔
”مجھے یہ سمجھ نہیں آتا وہ ابھی دس سال کا ہے اُسکے ذہن میں ایسی باتیں کون انڈیل رہا ہے؟؟“ وہ شدید کوفت کا شکار تھے۔
پہلے ہی ولیم کی خراب ذہنی حالت نے مسٹر جوزف کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی حادثہ، باقاعدگی سے چلتا اسکا علاج اور اب اوپر سے اس کی یہ عجیب و غریب ضد۔
”اس نے پہلی بار کچھ مانگا ہے مجھے لگتا ہے ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے اور اس میں فائدہ ہے۔ آپ کی عزت ہے۔ لوگوں کو پتا چلا کہ آپ کسی یتیم بچے کو اعلی تعلیم دلا رہے ہیں تو آپ کا ہی نام ہوگا۔“ نینی نے بات ہر رخ انکے سامنے رکھا۔ مسٹر جوزف نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”اور اگر یہ بات باہر نکل گئی کہ جوزف پیٹرسن کا بیٹا ذہنی طور پر غیر متوازن ہے تو آپ جانتی ہیں نتیجہ کیا ہوگا؟؟“
وہ کسی اور پہلو پر سوچ رہے تھے۔ آج تک جارج پیلس میں انہوں نے کوئی تقریب نہیں رکھی تھی۔ بچوں کی سالگرہ پر بھی ملازم اور گھر کے افراد ہی ہوتے تھے۔ ہمسائے یا انکے بچے کوئی نہیں آتا تھا اور بچوں کو اپنے دوست گھر لانے کی اجازت نہیں تھی۔
جیکب کا مہنگے اسکول میں داخلے کا مطلب ولیم کا اس سے دوستی تھا اور جوزف نہیں چاہتا تھا ان کی گھریلو زندگی کی بھنک بھی باہر والوں کو پڑے۔ وہ اس معاملے میں کافی احتیاط کرتے تھے۔
”ولیم سمجدار ہے۔“ نینی نے اسکی طرف داری کی۔ جبکہ حقیقت میں وہ اتنا بھی سمجھدار نہیں تھا اسکا ذہن جہاں اٹک جاتا تھا بس اٹک جاتا تھا وہاں سے ہلتا نہیں تھا۔
”نینی آپ جانتی ہیں اگر آج میں نے اس کی کوئی ناجائز ضد پوری کی تو کل وہ کوئی اور ضد لے آئے گا۔“ وہ بچوں کی ناجائز خواہشیں پوری کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
”ایک بات مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔“ انہیں منانے کا کام وہی کر سکتی تھیں اور ولیم جوزف مان بھی گئے تھے۔
گھنٹے بعد وہ لوگ اسکول کے لیے نکل رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے ولیم کی گردن فخر سے اکڑی ہوئی تھی۔ کندھے چوڑے لگ رہے تھے جبکہ جارج اور نساء اس سے مرعوب نظر آتے تھے۔ پہلی بارجوزف ولیم نے اپنے اصول بدلے تھے وجہ ولیم جوزف تھا اور آگے آگے جانے کیا ہونے والا تھا۔ جیکب ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ وہ انہیں اسکول اپنے ساتھ لے جارہے تھے تاکہ اس کا ایڈمیشن کروا سکیں۔ آج مسٹر جوزف دوسری گاڑی میں تھے۔
ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے ولیم نے رخ موڑ کر شیشے سے باہر دیکھا۔ اسکے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ وہ جانتا تھا اسکا باپ اپنے معیار سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ وہ کسی صورت ولیم کو عام سے اسکول میں پڑھنے نہ بھیجتا اور یہی ہوا تھا۔ وہ اب مسرور سا بیٹھا اسکول آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
یہ کچھ دن بعد کی بات تھی۔ وہ تینوں اسکول میں تھے۔ جارج کی اسکول میں کسی سے لڑائی ہوگئی۔ عموماً بچے وہاں لڑتے جھگڑتے نہیں تھے لیکن پچھلے کئی دنوں سے جارج کا کلاس فیلو اس سے عجیب سے جملے کس رہا تھا۔ وہ پڑھائی میں اچھا تھا اور اس باتمر جب اس نے پہلی پوزیشن لی تو اسے عجیب و غریب باتیں سننے کو ملیں۔
” تم لوگوں کو کیا لگتا ہے جارج ذہین ہے اس لیے اس نے یہ پوزیشن حاصل کی؟ اس کے باپ کے پاس بہت پیسہ ہے وہ لوگ پیسے سے سب خریدتے ہیں۔“ یہ دوسرے نمبر پر آنے والا لڑکا تھا۔
تیرہ سالہ یہ لڑکا آج کل ان سے خار کھانے لگا تھا۔
کئی بار جیکب نے اسے کلاس میں غلط باتیں کرتے سنا اور نظر انداز کردیا لیکن اس دن حد ہوگئی۔
”جھوٹی باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا تم بھی فرسٹ آسکتے ہو بس تھوڑی زیادہ محنت کرنی ہوگی۔“ وہ جوابا بولا۔
”میں تم لوگوں کی اصلیت اچھے سے جانتا ہوں اس لیے تم کچھ نہ بولو تو بہتر ہوگا۔“ وہ لڑکا نفرت سے بولا تو اس بار جارج کی تیوری چڑھ گئی۔ انہیں لڑائی جھگڑے سے منع کیا گیا تھا اور ویسے بھی وہ دھیمے انداز کا مالک تھا لیکن یہ باتیں اس کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی تھیں۔
”کیا جانتے ہو تم؟؟ بتاؤ ذرا۔۔“ جارج آگے بڑھا۔ اسٹوڈنٹس ان کے گرد گھیرا ڈالنے لگے۔
”تم بتاؤ نا کہ تمہارا بھائی پاگل ہے۔ تم بتاؤ اسکا علاج چل رہا ہے۔ کیوں چھپا رکھا ہے پورے اسکول سے؟؟“ لڑکا زور سے چلایا اور جارج اپنی جگہ پر ساکت رہ گیا۔ یہ بات تو راز تھی۔ پھر اسے کیسے پتا چلا؟؟ چاروں جانب اسٹوڈنٹس کی سرگوشیاں پھیل گئیں۔
”میرا بھائی پاگل نہیں ہے۔“ جبڑے بھینچتے بولا۔
”اچھا پھر کیا ہے بتاؤ۔ ہر ہفتے کیا لینے جاتا ہے وہ ہاسپٹل۔۔؟؟“ لڑکا آگے بڑھا اور اس نے جارج کو دھکا مارا۔ دراصل جس ہسپتال میں ولیم کے سیشن ہوتے تھے وہاں اس لڑکے کی ماں سینئر نرس تھی۔ لڑکے نے وہیں ولیم کو دیکھا تھا۔
”میں نے کہا بکواس بند کرو۔“ جارج اس پر جھپٹ پڑا اور اگلے ہی لمحے وہ گھتم گھتا تھے۔ ولیم جو بریک ٹائم میں جارج کو بلانا آیا تھا وہ اسے جھگڑتے دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ جارج نیچے تھا اور لڑکا اسے مار رہا تھا۔ ولیم اپنی جگہ جم گیا۔ اس نے کبھی لڑائی نہیں کی تھی اور انسان ایک بار جب ہاتھ اٹھانا سیکھ جائے پھر اس کا ہاتھ نہیں رکتا۔
”یاد رکھنا جو شخص اپنوں کو مصیبت میں اکیلا چھوڑ دے وہ اپنے پروردگار کو بھول چکا ہے۔“ سرسراتی آواز سرگوشی نما ابھری اور اگلے ہی پل ولیم کسی چھلاوے کی طرح اچھل کر لڑکے پر جھپٹا۔ اسے زوردار دھکا دیا اور پھر ساتھ والے ڈیسک پر رکھا بیگ اٹھا کر لڑکے کے سر پر دے مارا۔ اب وہ اوپر تھا لڑکا نیچے۔
اس نے تین چار بار بیگ لڑکے کے سر میں دے مارا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے دیکھ کر باقی اسٹوڈنٹس پیچھے ہٹ گئے۔
ہاتھ بڑھا کر جارج کو اٹھایا۔ گردن گھما کر سب کو دیکھا۔ شعلے اگلتی آنکھیں۔ سب مرعوب نظر آنے لگے۔ ولیم نے اپنے سے بڑے لڑکے کو مارا تھا۔
اس سے پہلے وہ کلاس سے نکلتے ٹیچرز بھاگتے وہاں تک پہنچ چکے۔ لڑکا نیچے پڑا کراہ رہا تھا۔ جبکہ جارج پل بھر کو گھبرا گیا۔ جو کام وہ کرچکے تھے مسٹر جوزف کو لازمی طلب کیا جاتا اور مسٹر جوزف یقیناً اس ناخوشگوار بلاوے پر انکی اچھی خاصی کلاس لینے والے تھے۔
دو گھنٹے بعد وہ سب پرنسپل کے آفس میں موجود تھے۔
مسٹر جوزف اپنی لمبی چمچاتی گاڑی میں اسکول پہنچے۔ اسکول کے مرکزی گیٹ سے پرنسپل کے آفس تک آتے جانے کتنی نگاہوں نے انہیں رشک سے دیکھا۔
سوٹڈ بوٹڈ چمچماتے جوتے پہنے انکی شخصیت نمایاں تھی اور اس وقت وہ پرنسپل کے آفس میں موجود تھے۔
جارج اور ولیم ان کے ساتھ تھے جبکہ دوسرے لڑکا اور اسکے والدین بھی آفس میں تھے۔ مسٹر جوزف کی شخصیت ایسی تھی کہ پرنسپل ان سے مرعوب نظر آتے تھے۔
”تم کیوں آئے بیچ میں؟؟“ جارج نے ولیم کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کا ہونٹ پھٹا ہوا تھا جبکہ دوسرے لڑکے ماتھے پر گومڑ بن چکا تھا۔
”تم نے جھگڑا شروع کیوں کیا؟؟“ ولیم نے اسی انداز میں الٹا سوال کیا۔
”اس نے تمہیں پاگل کہا میں کیسے چپ رہتا؟؟“ وہ دونوں کھا جانے والی نظروں سے سامنے بیٹھے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے اور لڑکے کے تاثرات بھی کچھ مختلف نہ تھے۔
”وہ تمہیں مار رہا تھا میں کیسے پیچھے رہتا؟؟“ انکی کھسر پسھر کی آوازی بھن بھن کرنے لگیں جبکہ مسٹر جوزف خاموش ہی رہے۔ وہ گہری نگاہوں سے صورتحال کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
”مسٹر جوزف آپ کو بتانا چاہیے تھا کہ آپکا بیٹا ذہنی طور پر ابنارمل ہے۔“ پرنسپل برہم لگ رہی تھی۔
”اور آپ سے یہ کس نے کہا؟؟“ ٹھنڈہ ٹھار لہجہ۔
”میں اسی ہسپتال میں سینئر نرس ہوں جہاں آپ اپنے بیٹے کو سیشن کے لیے لاتے رہے ہیں اور ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتا پرنسپل کہ آپ نے ایسے بچے کو داخلہ کیسے دیا؟“
توپوں کا رخ اب پرنسپل کی طرف تھا۔
”مسٹر جوزف آپ کچھ کہیں گے؟؟“ پرنپسل اب مسٹر جوزف سے استفسار کرنے لگیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں تھا۔
”آپ ابھی بھی ان سے پوچھ رہی ہیں؟؟ آپ کو نارمل بچوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے؟؟ اگر میرے بیٹے کو کچھ ہو جاتا تو۔۔؟؟“ وہ دونوں میاں بیوی بھڑکے ہوئے تھے۔
”دیکھیں اسکول کے اصولوں کے مطابق آپ کو بچے کی میڈیکل رپورٹ جمع کروانی ہوتی ہے یہ ضروری ہے۔“ مسٹر جوزف کی خاموشی پرنسپل کو کھٹک رہی تھی۔ جبکہ جارج اب اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جو تمسخرانہ مسکراہٹ اچھال رہا تھا۔ جارج نے داہنا ہاتھ اٹھا کر سیدھا کیا اور گردن پر پھیرا۔ وہ اسکا پتا کٹ جانے کا اشارہ کر رہا تھا جبکہ دوسرا لڑکا اب نخوت سے منہ موڑ گیا۔ دونوں اچھی خاصی چوٹ کھانے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھ رہے تھے۔
”میڈیکل رپورٹ میں ہسپتال سے لا کر دوں گی آپ برائے مہربانی ایسے بچے کو فوراً اسکول سے نکالیں۔اگر کل کو اس نے کسی کی جان لے لی تو پھر؟؟“ اشارہ ولیم کی طرف تھا۔
”اگر رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ ولیم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو ہمیں معذرت ہمیں سخت کاروائی کرنی ہوگی۔“ پرنسپل نے مسٹر جوزف سے کہا۔
”اور رپورٹ کلیئر ہوئی تو؟؟“ سرد سپاٹ تاثرات سے پوچھا گیا پرنسپل کے ساتھ ساتھ دوسرے لڑکے کے ماں باپ نے چونک کر مسٹر ولیم کو دیکھا۔
”تو اسکا فیصلہ جیوری فیصلہ کرے گی۔“ پرنسپل نے سنبھلتے جواب دیا۔
”ہرگز نہیں! آپ لوگ مجھ پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ جوزف پیٹرسن پر۔“ انہوں نے شہادت کی انگلی سے اپنے سینے پر دستک دی۔ چہرہ سپاٹ تھا جبکہ آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔
”یہ میری بدنامی ہے میں اسے ایسے ہی نہیں جانے دوں گا۔ اگر رپورٹس کلیئر ہوئیں تو ایسے بچے کو اسکول سے نکالا جائے گا جو دوسرے بچوں پر الزام لگائے انکی شخصیت کو داغدار کرے۔ منظور ہے؟؟“ انہوں نے کھلے عام للکارانہ لہجے میں کہا۔ پرنسپل نے بےساختہ دوسرے لڑکے کے والدین کی جانب دیکھا وہ پل بھر کو گھبرا گئے لیکن لڑکے کی ماں کو پورا بھروسہ تھا۔
”ہمیں منظور ہے۔“ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی وہ فوراً بولی ایک سفاکانہ سی مسکان مسٹر جوزف کے لبوں پر دوڑ گئی۔
ہسپتال فون کرکے رپورٹ منگوا لی گئی تھی اور ایک گھنٹے بعد جیوری فیصلہ سنا چکی تھی۔
ولیم کی رپورٹ کلیئر تھی۔ اسکا سالوں سے چلتا علاج کامیاب رہا تھا وہ اب نارمل تھا۔ بالکل باقی بچوں کی طرح۔
دوسرے لڑکے کو اسکول سے نکالنے کا حکم دیا گیا۔
لڑکے کے والدین تو صدمے میں چلے گئے۔
”آپ لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ پرنسپل صاحبہ ہماری بات سنیں۔“ لڑکے کے والدین پرنسپل کے پیچھے لپکے۔ انہوں نے اپنی پوری کمائی لگا کر اپنے بیٹے کو اس سکول میں داخل کروایا تھا۔
”مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ آپ لوگوں کا فیصلہ تھا جو بات کرنی ہے مسٹر جوزف سے کریں۔۔“ پرنسپل نے اپنے آفس میں داخل ہوتے دروازہ انکے منہ پر بند کردیا جبکہ وہ دونوں میاں بیوی حواس باختہ مسٹر جوزف کی جانب بڑھے۔ وہ جارج اور ولیم کو گھر لے جا رہے تھے۔ آج کے لیے اتنا کافی تھا۔ جارج کے ہونٹ پر مرہم پٹی کردی گئی تھی۔
”مسٹر جوزف مسٹر جوزف! پلیز ہماری بات سنیں۔۔“ وہ لپک کر انکے راستے میں حائل ہوئے۔ مسٹر جوزف کی بھنویں سکڑ گئیں۔ انکے بیٹے کو اسکول سے نکالا گیا تھا یہ چھوٹی بات نہیں تھی۔
”ہم معافی مانگتے ہیں اپنے اور اپنے بیٹے کی طرف سے پلیز ہمیں معاف کردیں۔۔“ وہ ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔
”ہمارے بیٹے کو اسکول سے نکالنے کا فیصلہ واپس لے لیں وہ کبھی آپکے بیٹوں کو تنگ نہیں کرے گا۔ خدا کا واسطہ ہے۔“
اسٹوڈنٹس ٹیچرز کلاس کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے۔ ہر سو سناٹا تھا۔
”جوزف پیٹرسن سب معاف کر سکتا ہے لیکن عزت پر انگلی اٹھانے والے کو نہیں۔“ اپنی جانب اٹھنے والی انگلی کو وہ بازو سمیت دھڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے روادار تھے۔
”رحم کریں خدا کا واسطہ ہے۔“ نسوانی آہ و پکار گونجتی رہی لیکن کسی کو وہاں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسٹر جوزف اپنے ساتھ جارج اور ولیم کو لے کر جا چکے تھے۔
✿••✿••✿••✿
یہ ولیم کی دسویں سالگرہ تھی جب جوزف پیلس میں ایک اور نفوس کا اضافہ ہوا۔ مسٹر جوزف کی انگلی تھامے وہ پیلس میں ٹھیک اسی طرح داخل ہوئی جیسے پانچ سال پہلے ولیم آیا تھا۔ سنہرے (blonde) بالوں والی نینسی جیسن مسٹر جوزف کی بھانجی تھی۔ حال ہی میں مسٹر جوزف کی اکلوتی بہن اور بہنوئی کا ایک کار حادثے میں انتقال ہوگیا۔ مسٹر جوزف نینسی کو پیلس لے آئے۔ وہ ولیم کی عم عمر تھی۔ وہ دونوں ایک دن پیدا ہوئے تھے۔ دونوں کی آج دسویں سالگرہ تھی۔
جوزف پیلس کو اندر سے برقی قمقموں سے سجایا گیا۔ پیلس کے اندر ہی تقریب تھی۔ مسٹر جوزف کے کچھ اہم مہمان مدعو تھے کچھ رشتے دار اور باقی ملازمین تھے۔
جارج، ولیم اور نساء تینوں نینی کے ساتھ ہاتھ میں گلدستہ پکڑے نینسی کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ مسٹر جوزف نینسی کا تعارف باری باری سب سے کروانے لگے۔ سب سے پہلے نینسی نساء سے ملی۔
نساء کے بال گہرے لال تھے کسی سیاہ چیری کی طرح اور اسکی آنکھیں بھوری مائل تھیں۔ نینسی نے نساء سے ہاتھ ملایا جو اسے دیکھ کر مسکرائی۔ اسکے بعد جارج تھا۔
وہ اپنی ماں جیسا تھا لیکن آنکھیں مسٹر جوزف جیسی سیاہ تھیں۔ وہ نینسی کو دیکھ کر شرما سا گیا۔ پھر نینی تھیں۔ نینی نے نینسی کو ٹھیک اسی طرح گلے لگایا جیسے ولیم کو لگایا اور آخر میں ولیم تھا۔
”ہیلو۔۔۔“ گہری کتھئی آنکھوں والا ولیم جوزف ایک طرح سے اس کا جڑواں تھے کیونکہ دونوں کی پیدائش ایک ہی تھی۔ ولیم نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑی نینسی کو دیکھا۔
سنہری آنکھیں، سنہری بال اور کسی گڑیا جیسے نین نقش۔ وہ حقیقتاً گڑیا جیسی تھی۔ سفید میکسی پہنے بالوں کو شہزادیوں کے سے انداز میں پیچھے باندھے، دونوں جانب سے نکلی ہوئی چند لٹوں کے ساتھ وہ ولیم کو پسند آگئی۔ اس نے مسکرا کر نینسی کا ہاتھ تھاما۔ نینسی نے اس کم عمری میں اپنے والدین کو کھویا تھا اور اب اسکا گھر یہی تھا یہی اس کی فیملی تھی یہی سب کچھ تھا۔
وہ وہاں آکر خوش تھی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں مہمانوں کی توجہ کا مرکز بنے ایک ساتھ کیک کاٹ رہے تھے۔ جلتی مشعلوں کے درمیان، دھیمے سروں میں بجتا گرام فون اور اس پر ملتی نیک تمنائیں، ولیم کو آج سے پہلے کبھی اتنا اچھا نہیں لگا۔ وہ خوش تھا۔ جب کیک کاٹ لیا گیا اور کھانا شروع ہوا تب نینسی اس کے قریب آکر بیٹھ گئی۔
اس کے بیٹھنے اٹھنے میں ایک رکھ رکھاؤ تھا یوں جیسے وہ کسی شہزادی کی زندگی جیتی آئی ہو۔
”تمہیں اپنے دسویں جنم دن پر کیسا لگ رہا ہے؟؟“ اس نے براہ راست ولیم سے پوچھا۔ گردن ایک ادا سے اٹھی ہوئی تھی۔ ہاتھ نفاست سے گود میں رکھے تھے۔
”یہ سب اچھا ہے۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”لیکن مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے پہلی بار میں کسی ایسے انسان سے ملی ہوں جس کا جنم دن میرے ساتھ آتا ہو۔۔“ وہ ذرا سا رخ موڑ کر ایک ادا سے مسکرائی۔ ولیم نے جوزف پیلس کی چکاچوند کو ان سنہری آنکھوں کے سامنے مدھم ہوتے دیکھا۔
”تو۔۔۔؟؟“ وہ بڑبڑایا۔
”تو یہ کہ ہمیں اچھے دوست بننا چاہیے۔۔“ کندھے اچکا کر کہا گیا۔
”میں مختص دوست بناتا ہوں۔“
”اور میں بناتی ہی نہیں۔ کوئی مجھے اپنے جیسا نہیں لگتا۔“ ادا قائم رہی۔ ولیم مسکرا دیا۔
”ڈن۔۔۔“ اس نے اپنی طرف سے پکا کر دیا اور اسی کے انداز میں نینسی نے بھی اور یوں ایک ایسے رشتے کا آغاز ہوا جس میں سب کچھ تھا۔ دوستوں جیسا پیار، بہن بھائیوں جیسا احترام اور دشمنوں جیسی ضد۔
وہ سچ میں جڑواں بن گئے۔ جو ایک کرتا وہی دوسرا کرتا۔
نینسی بہت جلد گھل مل گئی۔ وہ ولیم کی کلاس میں تھی۔
دونوں کا کورس ایک ہوتا۔ اسائمنٹ ایک ہوتا۔ دونوں ہوم ورک ایک ساتھ کرتے اور دونوں کو ایک جیسے کھیل پسند تھے۔ ولیم نارمل ہوتا گیا۔ وہ نارمل بچوں کی طرح رد عمل ظاہر کرنے لگا۔ خوشی کا، غم کا، غصے کا۔ وہ سب ظاہر کرنے لگا۔ وہ شرارتیں کرنے لگا۔ ہیلوسینیشن ختم ہوگئے۔ سب ٹھیک ہوگیا۔
وہ سب ساتھ میں بڑے ہورہے تھے۔ مسٹر جوزف انہیں دنیاوی تعلیم دلا رہے تھے تو نینی دینی تعلیم کی طرف توجہ دے رہی تھیں۔ وہ انہیں ہر اتوار چرچ لے کر جاتیں انہیں ہر رات درس دیتیں۔انہیں قصے کہانیاں سناتیں۔
جوزف پیلس میں زندگی گونجنے لگی تھی اور مسٹر جوزف بےفکر ہو کر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے۔انہیں بلندیوں کو چھونا تھا لیکن وہ بچوں سے ہرگز غافل نہ ہوئے۔ انہوں نے ڈسپلن قائم رکھا۔
ان چاروں کی پسندیدہ فلم The Chronicles of Narnia تھی۔ جس میں وہ چاروں بہن بھائی خود کو پاتے تھے۔ پیلس کی بڑی الماریوں کے اندر چھپ کر وہ مووی کے سین ری کری ایٹ کرتے۔ وہ چاروں ایڈمز کے بیٹے اور بیٹیاں تھے۔ تہہ خانے سے انہیں اسٹوڈیو کے کچھ پرانے کاسٹیومز مل جاتے جنہیں پہن کر وہ چاروں شہزادے اور شہزادیاں بنے گھومتے۔ جارج زیادہ پڑھائی پر توجہ دیتا تھا جبکہ نساء تھوڑی کم گو اور ڈرپوک تھی پر ولیم اور نینسی ہر کام میں آگے ہوتے۔ مسٹر جوزف کی غیر موجودگی میں پورے پیلس انکے عتاب کے زیرنظر ہوتا اور یہ سب ہائی اسکول تک چلتا رہا۔ زندگی خوبصورت تھی بالکل کسی خواب کی طرح۔ پر یہ خواب زیادہ دیر قائم نہیں رہا پھر زندگی نے رخ موڑا تو سب بدلنے لگا۔ وقت ایک سا نہیں رہتا اور زندگی میں ہونے والے حادثات انسان کو بدل دیتے ہیں اور ایسے کئی حادثے ان کی زندگی میں پیش آئے جس نے انہیں بدل کر رکھ دیا۔
✿••✿••✿••✿
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ”اسٹار لائٹ اسٹوڈیو“ پروڈکشن ہاؤس کا نام مزید روشن ہونے لگا۔ مسٹر جوزف کا یہ پروڈکشن ہاؤس ملک کا ٹاپ پروڈکشن ہاؤس تھا جہاں بڑے بڑے برینڈز کے کمرشل کیے جاتے۔ مسٹر جوزف نے جانے کتنے کامیاب ماڈلز اور اداکار اس پروڈکشن ہاؤس سے نکالے تھے۔ شابز انڈسٹری میں انکے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ محنت کرتے تھے۔ خوب محنت وہ محنت جس سے انہیں فائدہ ہوتا۔
لوگ ان کی عزت کرتے تھے ان کے کام کو سراہتے تھے۔ پچھلے پانچ سالوں سے وہ فلم انڈسٹری میں قدم رکھ چکے تھے اور پانچ سالوں میں انہوں نے پانچ فلمیں اور کئی ٹی وی سیریز کی تھیں جو سپر ہٹ تھیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ انکا کام انکا جنون بنتا جارہا تھا۔ کچھ لوگوں کو پیسے کی ہوس ہوتی ہے جبکہ جوزف پیٹرسن کو نام کی ہوس تھی۔ شہریت کی۔ ہمیشہ چمکتے رہنے کی۔ انہیں روشنیوں میں رہنے کی عادت تھی اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا۔
جارج ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹی جا چکا تھا۔ اس نے اپنے باپ کی طرح فلم اور ہدایتکاری کو چنا۔ وہ ذہین اور محنتی تھا۔ اس لیے مسٹر جوزف نے اسے ہدایتکاری کی پڑھائی کے لیے بھیج دیا۔
جبکہ نینسی اور ولیم کا ہائی اسکول کے آخری سال میں تھے۔ اس سال انہوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتے تھے۔
جارج گرمی کی چھٹیوں میں گھر آیا تو مسٹر ولیم نے شام کی چائے کے بعد اہم میٹنگ کا اعلان کیا۔
سب حیران تھے۔ میٹنگ کیوں رکھی جا رہی تھی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اس میٹنگ میں سب کا موجود ہونا ضروری تھا۔
باہر موسم خوشگوار تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش کسی بھی وقت ہو سکتی تھی۔
لاؤنج میں رکھے قیمتی صوفوں پر وہ سب ٹکے ہوئے تھے۔ کچن سے چائے کی اٹھتی مہک مسحور کن تھی۔
مسٹر ولیم سربرائی صوفے پر بیٹھے تھے۔ ٹانگ پر ٹانگ جمائے۔ ڈریس پینٹ اور سفید شرٹ پہنے جس کے کف فولڈ تھے اور بیش قیمتی گھڑی پہنے وہ اپنے سامنے بیٹھے ولیم کو دیکھ رہے تھے۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
William Wali All Previous Episodes
👉Episode 4(part 02): Click Here
👉Episode 4(part 01): Click Here
👉Episode 3(part 02): Click Here
👉Episode 3(part 01): Click Here
👉Episode 2: Click Here
👉Episode 1: Click Here

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

William Wali by Noor Rajput - Episode 1

William Wali By Noor Rajput - Episode 02