William Wali By Noor Rajput - Episode 03(part 01)
ولیم_ولی (محبت کے نام)
قسط_نمبر_3 پارٹ1
نور_راجپوت
انسان جب اپنی انا پر آتا ہے تو وہ نفع نقصان نہیں دیکھتا بلکہ وہ ہمیشہ نقصان ہی اُٹھاتا ہے، سارے خسارے سمیٹ لیتا ہے، ذرا نہیں پچھتاتا، ذرا نہیں گھبراتا، ذرا نہیں ڈرتا۔
اور اس وقت وہ دونوں اپنی اپنی انا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے وہ دونوں سارے خسارے سمیٹ لینا چاہتے تھے پر کیا واقعی اُنکے حصے میں صرف خسارے آنے والے تھے؟؟
سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان نے پورے سماں کو سرمئی سا کردیا تھا۔ ہوا کے ساتھ بارش کی بوچھاڑ وقفے وقفے سے پڑتی اور رک جاتی۔
بس اسٹاپ پر بس اپنے وقت پر کئی بار رکی اور چلی گئی۔ پر وہ دونوں وہیں بیٹھے رہے۔
”مجھے تم سے شادی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ہاں پر مسئلہ تمہیں ہوگا۔“ ولیم نے سادہ سے لہجے میں کہا۔ فجر نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ ہوا چلنے کے باعث اب اُسکے کپڑے سوکھ چکے تھے۔ چہرے سے چپکی وہ بالوں کی چند لٹیں بھی اب اڑ اڑ کر کبھی آنکھوں کو تو کبھی گالوں کو چھو رہی تھیں۔
”مجھے کیا مسئلہ ہوگا؟؟“
”تم مسلم ہو اور میں کرسچن۔ مجھے نہیں لگتا ہم اِس ملک میں مذہبی آزادی کے بنا شادی کر پائیں گے۔۔۔“
فجر خاموش رہی کہہ تو وہ ٹھیک رہا تھا۔ وہ اب سامنے دیکھنے لگی۔ اُسکے بس میں ہوتا تو وہ فوراً یہ شادی کرلیتی۔ اُسے فرق نہیں پڑتا تھا ولیم کون تھا؟ فی الوقت وہ اُس کے لیے ایک ذریعہ تھا۔ ایک ہتھیار اپنوں سے بدلے لینے کے لیے اور بس۔۔۔اِس سے آگے کچھ بھی نہیں۔
”لیکن اگر تم چاہو تو ایک طریقہ ہے۔۔“ وہ اُس کی جانب مڑا۔ کتھئی آنکھیں فجر کی آنکھوں سے ٹکرا گئیں۔ تمام رنگوں سے واقف ولیم جوزف اس پل سمجھ نہیں پایا کہ فجر کی آنکھوں کا رنگ کیا تھا۔ جیسے سارے رنگ ملا کر کوئی ایک رنگ بنادیا گیا ہو۔ سارے جذبے ملا کر کوئی ایک تاثر بنا دیا گیا ہو۔ جیسے سارے تارے توڑ کر اُسکی آنکھوں میں بھر دیے گئے ہوں اور جیسے سارا درد دھان کردیا گیا ہو جیسے سارے سمندر ان آنکھوں میں جمع ہو گئے ہوں کچھ ایسی ہی اُسکی آنکھیں تھی۔
”میں مسلم ہوجاؤں یا تم کرسچن ہوجاؤ۔۔۔“ عام سا جملہ تھا عام سی بات۔ ولیم جوزف نے فجر معراج کی آنکھوں کی پتلیوں کو پھیلتے دیکھا تھا پر وہ سمجھ نہ پایا وہ کیوں پھیلی تھیں۔ حیرت سے یا خوف سے؟؟ وہ خاموشی رخ پھیر گئی۔ یہ کرنے کی فی الوقت ہمت نہیں تھی۔۔۔۔یعنی کچھ اور حل نکالنا تھا۔ پھر کچھ خیال آنے پر وہ دوبارہ اُسکی جانب مڑی۔
”کیا تم میرے لیے یہ کر سکتے ہو؟“ چہرے پر معصومیت اور آنکھوں میں آس سجا کر پوچھا گیا۔
”کیا۔۔۔؟؟“ ولیم نے کیپ والا سر اونچا کیا۔
”تم میرے لیے مسلمان ہوسکتے ہو؟؟“ دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا گیا۔ وہ اُسکی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اچھا کرسچن تھا پر کیا فرق پڑتا تھا اگر وہ ذرا سا ڈرامہ کرلیتا؟؟
اُسے ایک تیر سے دو شکار کرنے تھے اور اِس سے بہتر موقع کیا ہوسکتا تھا۔۔؟؟ وہ کئی ثانیے اسے دیکھتا رہا۔ خاموشی سے اور پھر فون نکالتے بولا۔
"Okay I will..."
کیا شان بےنیازی تھی۔ کیا فراخدلی تھی۔ فجر تو حیران رہ گئی۔ اور پھر اگلے لمحے وہ فون پر کوئی نمبر ملاتا اٹھ کر چلا گیا۔ اب وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔ فجر اُسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک کم عمر نوجوان تھا اس سے دو سال ہی بڑا ہوگا۔ بیگی پینٹ اور بھوری اوور سائزڈ اونی گول گلے والی شرٹ پہنے وہ اب ہاتھ اٹھا کر کسی سے بات کر رہا تھا۔ اُسکا رنگ انگریزوں جیسا سفید نہیں تھا یعنی حد سے زیادہ سفید جو عجیب لگے۔ اُسکا رنگ صاف تھا صاف شفاف۔
وہ سر پر کپ اوڑھے رکھتا تھا اور ابھی تک اوڑھ رکھی تھی۔ پاؤں بند جوتوں میں قید تھے۔ وہ لمبا تھا۔ دبلی پتلی جسامت والا لڑکا بنا کسی جم مسلز کے تھا پر وہ کمزور نہیں تھا۔ وہ اسے یونہی دیکھے گئی خالی خالی نظروں سے اور پھر وہ فون بند کرتا واپس اُسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔
“جنید آرہا ہے وہ ہماری مدد کرے گا تم ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔“ وہ ہولے سے بولا۔ اب کی بار چہرے پر سنجیدگی تھی۔فجر نے اس سے نظریں ہٹا کر ایک بار پھر روڈ پر گزرتی گاڑیوں پر جمادیں۔
”فجر نے جو سوچ لیا سوچ لیا۔ فجر معراج اپنے فیصلے نہیں بدلا کرتی۔“ لہجے میں سختی تھی۔ وہ کچھ نہیں بولا۔
”تو ولیم جوزف شادی کر رہا ہے واؤ۔۔۔“ وہ پھر آگئی تھی۔ وہ اُسکے لہراتے سلک کے گاؤن کی آواز سن سکتا تھا وہ اُسکے دائیں جانب کھڑی تھی اور جھک کر اُسکے کان کے قریب سرگوشی کر رہی تھی۔
”تم اتنے کمزور کب سے ہوگئے ولیم کہ بدلے کے لیے ایک لڑکی کو استعمال کرو۔۔؟؟“ وہ اسے غصہ دلا رہی تھی۔ ولیم کے جبڑے بھنچ گئے۔
”جاؤ یہاں سے۔۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑایا۔ اتنی آہستگی سے کہ پاس بیٹھی فجر نہ سن سکے۔ چہرے کی رنگت بدل گئی۔ نقوش تن سے گئے۔
”تم بزدل ہو ولیم جوزف۔۔۔“ وہ اب ہنستے ہوئے چلی گئی جبکہ ولیم نے بےساختہ پہلو بدلا۔ آج رات دس بجے اُسکی فلائٹ تھی۔ اُسے واپس جانا تھا اور جانے سے پہلے یہ کام اب ضروری سا لگ رہا تھا۔ شاید یہ اسکی زندگی کا سب سے برا ایڈوانچر ہونے والا تھا۔
دونوں خاموش بیٹھے اپنی اپنی سوچوں میں سرگداں تھے۔
آنے والے وقت کا سوچ رہے تھے تبھی وہاں ایک گاڑی آکر مین سڑک سے تھوڑا سائیڈ ہو کر رکی۔ دروازہ کھلا اور جنید باہر نکلا۔ یہ وہی لڑکا تھا جو کل ولیم کے ساتھ رستوران میں بیٹھا تھا۔ وہ گاڑی سے باہر آیا اور پھر فجر کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گیا۔ اسے دیکھ کر ولیم اٹھ کر اسکی جانب چلا گیا۔
پہلے پہل جنید کو لگا ولیم مزاق کر رہا ہوگا پر اس نے فجر کو ساتھ بیٹھے تو وہ ساکت ہوا۔
”کیا تم سچ میں یہ کرنا چاہتے ہو؟؟“ جنید اب کن انکھیوں سے فجر کو دیکھتے بولا۔ دونوں سوشل میڈیا پر ہی ملے تھے اور جنید ٹوور گائیڈ کے طور پر ولیم کی مدد کر رہا تھا۔ وہ ولیم سے انسپائرڈ تھا اور اسے اچھا دوست مانتا تھا۔
”ہاں تم بے بتایا تھا تمہارے انکل وکیل ہیں تو تمہاری ہیلپ چاہیے۔۔“ وہ آرام سے بولا۔
”وہ سب تو ٹھیک ہے پر تمہیں پتا نہیں ہے وہ لڑکا جو کل اُسکے ساتھ تھا اُسکا تعلق کس خاندان سے ہے۔ میں اُنہیں جانتا ہو اگر اسے پتا چل گیا تو۔۔؟؟ اگر اُس نے کوئی ہنگامہ کھڑا کیا تو۔۔؟؟“ جنید پھنس گیا تھا۔ وہ مدد سے انکار نہیں کر سکتا تھا پر معاملہ ایسا تھا مدد کرنا بھی نہیں چاہتا تھا
اسکی بات سن کر ولیم زیرلب مُسکرایا۔
”میں ولیم ہوں اور میں خود کو جانتا ہوں میں نے ہاں کردی ہے میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔۔۔“
جبکہ جنید بار بار گردن موڑ کر بت بنی بیٹھی فجر کو دیکھ رہا تھا۔ وہ پریشان تھا اور ساتھ ہی ساتھ فجر پر حیران تھا جو اتنا بڑا قدم اٹھا رہی تھی۔ کیا واقعی وہ سنجیدہ تھی؟؟
”اب بتاؤ سب سے پہلا مجھے کیا کرنا ہے؟“ ولیم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔ وہ قد میں جنید سے لمبا تھا۔ وہ کیا باتیں کر رہے تھے فجر کو کچھ اندازہ نہیں تھا۔
”برو تمہیں سب سے پہلے مسجد جانا ہے ک مسلمان ہونا ہے پھر آگے کا پروسیجر ہوگا۔۔“ وہ جلے کٹے سے لہجے میں بولا۔
”اوکے لیٹس گو۔۔۔“ وہ لہراتا فجر کی جانب پلٹ گیا تاکہ اسے بلا لائے جبکہ جنید وہیں کھڑا رہا۔ اسے یہ کام کرتے ڈر تو لگ رہا تھا پر وہ ولیم کو انکار نہیں کر سکتا تھا۔ جنید کے بار بار بلانے پر وہ پاکستان کی خوبصورتی دیکھنے آیا تھا پر جنید نہیں جانتا تھا اسے پاکستانی خوبصورتی اتنی بھاجائے گی کہ وہ ایسے ایڈوانچر پر اتر آئے گا۔ اب وہ فجر کے قریب کھڑا کچھ کہہ رہا تھا اور پھر وہ دونوں جنید کو اپنی طرف آتے دکھائی دیے اور پھر اگلے ہی لمحے فجر پیچھے بیٹھی تھی جبکہ ولیم جنید کے ساتھ آگے بیٹھا تھا اور جنید اب شہر کی سب سے بڑی جامعہ مسجد کی جانب گاڑی لے جارہا تھا۔
فجر نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھا۔۔۔ ارسل کا چمچماتا میسج اسکرین پر دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی کہ اب اسکے بنا موبائل فون بےکار لگ رہا تھا۔ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی اور آنکھیں پھر سے لبالب بھرنے لگیں۔
”نہیں۔۔۔بس اب اور نہیں۔۔۔“ صبح والی تضحیک کیسے بھول سکتی تھی وہ۔ نظریں موبائل سے اٹھا کر گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھا تو بارش ہلکی ہلکی پھر سے شروع ہوچکی تھی۔ گاڑی میں خاموشی چھائی تھی۔ شاید وہ دونوں فجر کی موجودگی میں خاموش تھے۔ گاڑی میں ہیٹر آن تھا اسے گرمائش کا احساس ہوا اور جسم کو سکون ملا تو آنکھیں بند کرکے گاڑی کے شیشے سے سرٹکا کر آنکھیں موندھ لیں۔
ارسل مسکراتا چہرہ ابھرہ اور فجر نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
آخر وہ شخص پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہا تھا؟؟؟
وہ رودی منہ پر ہاتھ رکھے، سسکیوں کو دباتے، بےآواز، تاکہ آگے بیٹھے وہ دونوں لڑکے اسکا مزاق نہ اڑائیں۔
اور تم انسان کی تکلیف نہیں سمجھ سکتے جو اپنی ہی سسکیاں دباتے بےآواز رودے۔
جانے کتنی دیر وہ یونہی روتی رہی۔ آگے بیٹھے ولیم اور جنید جان گئے تھے۔ جنید نے ولیم کو اشارہ کیا جبکہ ولیم نے اسے خاموش رہنے کا جواب دیا وہ چاہتا تھا فجر رو لے۔ اسی لیے اسے رونے دیا۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ لوگ اب ایک مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔ سفید میناروں والی خوبصورت بڑی سی مسجد۔ اسکا گنبد سبز تھا۔ مرکزی شاہراہ پر بنی یہ مسجد کافی بڑی تھی۔ عید نماز کے موقع پر سارا شہر یہیں اکٹھا ہوتا تھا۔
گاڑی جھٹکے سے رک گئی اور فجر جیسے ہوش میں آئی۔
فٹافٹ آنکھیں صاف کرتی سیدھی ہو بیٹھی۔ ولیم نے ایک نظر باہر دیکھا۔ آسمان اور بھی سیاہ بادلوں سے ڈھک چکا تھا اور ٹھنڈی ہوا مزید تیز ہوئی۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے بیگ کی زپ اوپن کی اور اندر سے اپنی سیاہ جیکٹ نکالی۔
”تم یہ پہن لو باہر کافی ٹھنڈ ہے۔۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر جیکٹ فجر کی جانب کی۔ وہ اسے منع کردینا چاہتی تھی پھر کچھ سوچتے ہوئے جیکٹ تھام لی جبکہ جنید انہیں وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر گاڑی سے باہر نکل گیا۔
اسے اپنے انکل سے بات کرنی تھی۔ فجر کی طرف سے کوئی نہیں تھا۔ کوئی اسکا ولی نہیں تھا اور ایسے میں کورٹ میرج بیسٹ آپشن تھا۔ وہ اسی سلسلے میں بات کرنے گیا تھا اور آج کی آج یہ کام لازمی تھا۔ گاڑی میں خاموشی چھاگئی۔ ولیم کے چہرے پر اب پہلے والا جوش نہیں تھا فجر کی حالت اسے الجھن میں ڈال رہی تھی۔
کیا وہ لڑکی اپنے ساتھ ٹھیک کر رہی تھی؟؟
کیا وہ اسکے ساتھ ٹھیک کر رہا تھا؟؟
کیا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک رہے تھے؟؟ وسوسے سر ابھارنے لگے تو اسکی انا نے سب کو کچل دیا۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا مسجد کے اسپیکر سے آواز ابھری۔
”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر۔۔“
ظہر کی اذان تھی۔ ولیم ساکت ہوا۔ اُس نے پلٹ کر فجر کو دیکھا جو بےاختیار ہی موؤذن کے پیچھے زیر لب اذان کے الفاظ دہرانے لگی تھی اور ایسا کرنا ہمارے خون میں شامل ہے اس سے ولیم ناواقف تھا۔ دماغ جہاں بھی ہو، دھیان کہیں بھی ہو، انسان کوئی بھی کام کر رہا ہو لیکن اذان کی آواز کے ساتھ زیرلب دہرانا جیسے فطرت میں شامل تھا۔
اذان ختم ہوگئی۔ ولیم یونہی بیٹھا رہا ساکت سا۔ جنید واپس آیا وہ اب فجر کو وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر ولیم کو اپنے ساتھ مسجد کے اندر لے گیا۔
جیسے ہی وہ مسجد کے بڑے سے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو سکون سا اندر اترنے لگا۔ بائیں جانب ڈھیر سارے غسل خانے تھے جبکہ دائیں جانب نل لگے تھے۔ جنید خود تذبذ کا شکار تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا ایسی صورتحال میں کیا کیا جاتا تھا۔
سامنے ہی کھلا بڑا سا سرخ ٹائیلوں والا صحن اور دائیں جانب دیوار کے ساتھ ایک جانب پودے لگے تھے۔
مسجد کافی رقبے پر پھیلی تھی اور اسکے مینار جس شان و شوکت سے کھڑے تھے ولیم مرعوب نظر آیا۔ کچھ دیر بعد لوگ مسجد میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔ سب نمازی تھے۔ نماز پڑھنے آئے تھے۔ سردیوں میں یوں بھی دن ذرا چھوٹے ہوتے ہیں تو وقت کم ہی ہوتا ہے۔
وہ سب قطار میں لگے نل پر بیٹھے وضو کر رہے تھے۔ پانی گرم آرہا تھا۔ مسجد کا گیزر آن تھا۔ ولیم نے دیکھا بوڑھے بزرگوں کو، مردوں اور کم عمر لڑکوں کر دلجمعی سے وضو کرتے وہ سب ایک ساتھ بیٹھے ایک جیسا طریقہ اپنائے ہوئے تھے۔ یہ سب ویسا ہی تھا جیسے وہ ہر سنڈے چرچ جاتا تھا باقاعدگی سے۔ دل سے۔۔۔وہ خدا کا پیروکار تھا۔ لیکن یہاں کچھ الگ محسوس ہورہا تھا۔ وہ کسی ٹرانس کے زیراثر سب دیکھ رہا تھا۔
”تم یہیں رکو میں امام صاحب سے بات کرکے آتا ہوں۔۔“ جنید اسے وہیں چھوڑ کر جوتے اتارتے صحن کی جانب بڑھا جس کے دوسرے حصے پر مسجد کا اندرونی حصہ تھا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ واپس پلٹ آیا۔ اس نے اپنی جیکٹ اتاری اور ولیم کو تھمادی۔
”تمہاری وجہ سے اب مجھے نماز پڑھنی پڑے گی۔۔“ وہ بےزار سا کہتا وضوکرنے نل کی جانب بڑھا اور پھر کچھ دیر وہ وضو کرکے اٹھا اس نے اونچی آواز میں دعا پڑھی۔ وہ عربی میں پڑھ رہا تھا ولیم سمجھ نہیں پایا لیکن وہ غور سے ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔ وہ دعا پڑھتا اسکی جانب آیا۔ وہ اب فولڈ کیے کف سیدھے کر رہا تھا۔
”تم روز نہیں کرتے عبادت؟؟“ ولیم کی حیرت سے پوچھا۔ اسکی کتھئی آنکھوں میں الجھن واضح تھی۔
”نہیں۔۔۔اتنا وقت کس کے پاس ہوتا ہے؟؟“ وہ اب اپنی جیکٹ پہن رہا تھا۔ چہرے پر پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔
”لاسٹ ٹائم کب کی تھی؟؟“
جنید ٹھٹھک کر رکا۔
”شاید عید پر۔۔۔“ گہری خفت نے آگھیرا۔
”پھر تمہیں یہ سب کیسے یاد رہتا ہے؟؟“ ولیم نے اچنبھے سے پوچھا۔
”یہ سب اسٹپ بائے اسٹیپ جو تم نے اپنی کیا اور تم نے کچھ پڑھا۔۔۔ یہ تمہیں کیسے یاد رہتا ہے؟؟“ وہ الجھی آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا جبکی جنید ساکت ہوا۔ یہ تو وہ خود نہیں جانتا تھا۔ اسکے گھر میں سے شاید ہی کوئی شخص روز مسجد جاتا ہوگا وہ خود عید نماز ہی پڑھتا تھا پھر اسے کیسے دعا یاد تھی؟؟ کیسے وہ وضو کا ایک بھی اسٹیپ نہیں بھولا تھا۔ کیسے اس نے وضو کے بعد بےساختہ آسمان کو دیکھا تھا۔ کیسے اسکے لبوں نے اشھد ان کہا تھا۔۔۔یہ گواہی تو بےساختہ تھی۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
”میں نہیں جانتا شاید یہ سب ہمارے اندر ہے ہمیشہ سے ایسے ہی۔۔۔“ وہ اب اپنی جیکٹ پہن رہا تھا۔
ولیم کو حیرت ہوئی۔
”کیا مطلب؟؟ میرے اندر کیوں نہیں کے۔۔؟؟“ وہ الجھ چکا تھا۔
”تم یہ سب امام سے پوچھنا۔ اب آؤ جماعت کھڑی ہوچکی ہوگی۔۔۔“ وہ کہتا تیزی سے اندرونی حصے کی جانب بھاگا۔ اسکے قدموں میں تیزی تھی۔
وہ تو نماز نہیں پڑھتا تھا پھر یہ تیزی کس لیے؟؟ نماز چھوٹ جاتی جماعت چھوٹ جاتی تو کیا ہوجاتا۔۔؟؟
وہ کیا چیز تھی جو اسے الجھا رہی تھی ولیم خود بھی نہیں سمجھ پایا۔ جیسے ہی وہ اندر پہنچے قطاریں کھڑی ہوچکی تھیں۔ جیند جلدی جلدی سب سے آخری قطار میں کھڑ ہوگیا۔ جبکہ ولیم ایک جانب۔ اس نے بیگ سے کیمرہ نکالا وہ پہلی بار انسانوں کو ریکارڈ کر رہا تھا۔ لوگ ابھی تک آرہے تھے اور کھڑے ہوتے جارہے تھے۔ یہ حصہ کافی پرسکون تھا۔ ولیم نے دیکھا وہ سب ایک ساتھ جھک رہے تھے پھر ایک ساتھ کھڑے ہوئے پھر وہ جھکے اور سجدے میں چلے گئے۔۔۔
ہاں یہ دلچسپ تھا۔ چرچ میں اسے یہ نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔
اس نے تھوڑی سی ویڈیو بنائی پھر کیمرہ واپس رکھ دیا وہ اب چل پھر کر چاروں جانب سے مسجد کے اندرونی حصے کو وزٹ کر رہا تھا۔ اونچے اونچے ریکوں میں رکھے قرآن پاک اور دینی کتابیں۔۔۔نمازی بہت زیادہ نہیں تھے پر جو تھے انہوں نے سماں باندھ دیا تھا۔
نماز پڑھ لی گئی۔ دعا ہوگئی۔ لوگ واپسی کے لیے پلٹ گئے اور کچھ قرآن پاک کونوں کھدروں میں بیٹھ گئے۔
آج کے دور میں اللّہ والے کم تھے پر جو تھے وہ اللہ والے ہی تھے انہیں اللہ سے کوئی دور نہیں کر سکتا تھا۔
اس نے دیکھا جنید اب ایک سفید کپڑوں والے ادھیڑ عمر آدمی کے قریب کھڑا تھا۔ اس نے انگلی سے ولیم کی جانب اشارہ کیا۔ وہ آدمی امام مسجد تھا جس نے سفید ٹوپی اوڑھ رکھی تھی ولیم کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور پھر وہ دونوں اسکی جانب بڑھے۔ جنید کے چہرے پر اب چمک تھی جبکہ ولیم کا دل بےساختہ دھڑکا۔ وہ اسی جانب آرہے تھے اور آتے ہی امام نے ولیم کو گلے لگالیا۔ ولیم دھک سے رہ گیا۔ اس بے یہ توقع نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے چوبیس سالوں کو یاد کیا ہوش سنبھالنے سے اب تک اس نے کبھی کسی کو گلے نہیں لگایا تھا۔ وہ یونہی کھڑا رہا ساکت تھا۔ دونوں ہاتھ پہلو میں تھے۔ بیگ کندھے پر۔۔۔امام مسجد کے وجود سے اسے ایک گرمائش پھوٹتی محسوس ہوئی۔ وہ پودوں کے احساسات تک کو ریکارڈ کرنے والا فی الوقت اپنے احساسات سے انجان تھا۔ امام مسجد ہولے سے اس سے الگ ہوگیا۔ پھر اس نے ولیم کا کندھا تھپتھپایا۔
”شاباش۔۔۔“ امام مسجد مسکرایا جبکہ ولیم نے آنکھیں پھیلا کر جنید کو یہ دیکھا۔
یہ سب کیا تھا۔۔؟؟ جبکہ جنید نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔
”میں چاہتا ہوں تم سب سے پہلے غسل کرلو۔۔۔“ پتا نہیں کیوں امام مسجد کے کندھے خوشی سے پھیلے ہوئے تھے۔ جنید نے انگلش میں فوراً ترجمہ کیا۔ ولیم نے سر اثبات میں ہلادیا۔ پھر وہ اسے غسل کا طریقہ کی ویڈیو دکھانے لگا۔
اسکے بعد ولیم نے غسل کیا اور اس نے ہیڈ فون اور کیپ اتار دی تھی۔ اسکے بال گیلے تھے جسے امام نے مسجد نے اپنے کندھے سے سفید کپڑا اتار کر اسے صاف کرنے کو کہا۔
اسکے بعد اسے وضو کروایا گیا جیسے جنید کر رہا تھا۔ وہ خاموشی سے سب کر رہا تھا۔ یہ دلچسپ تجربہ تھا۔
”مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے تمہارے سرکل میں دور دور تک کوئی مسلمان نہ ہو۔۔“ اسکی سماعت سے باپ کی آواز ٹکرائی۔ لیکن وہ رکا نہیں۔ غسل اور وضو کے بعد وہ اب تینوں دوبادہ مسجد کے اندر بیٹھے تھے۔ گرم پانی سے نہانے کے بعد اب گرم ہال میں بیٹھے ولیم کو ذرا بھی ٹھنڈ محسوس نہ ہوئی۔ البتہ باہر گھپ اندھیرا چھا گیا تھا اور بارش پھر سے برسنے لگی تھی۔
”تم یہ سب اپنے لیے کر رہے ہو یا کسی اور کے لیے۔۔؟؟“ امام مسجد نے ولیم سے براہ راست پوچھا۔ جنید کے چہرے کا رنگ اڑا اور اس نے ولیم کو دیکھا جو اسکے ترجمے کا انتظار کر رہا تھا۔ جنید کے پوچھنے پر ولیم نے اسے سچ بتانے کا کہا۔ جسے امام مسجد نے سن کر خاموشی سے سر جھکا لیا۔
”اس لڑکی کو بلا لاؤ۔۔۔“ کچھ دیر بعد امام مسجد نے سر اٹھاتے جنید سے کہا۔ چہرے پر پہلے والی رمق نہیں تھی لیکن نرمی اب بھی ویسی ہی تھی۔
”میں چاہتا ہوں جس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے یہ سب کر رہا ہے وہ اسکی گواہی کے وقت موجود ہو۔۔۔“
”جی امام صاحب۔۔۔“ جنید فوراً اور نرم گرم سے قالین پر تیز تیز چلتا ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔جاتے ہوئے وہ دروازے کے قریب رکھی چھتری لینا نہیں بھولا تھا۔ باہر تیزی سے بارش جاری تھی۔ آواز ایسی تھی جیسے ژالہ باری جاری ہو۔ وہ باہر گاڑی تک آیا اور پھر فجر کی جانب آتے تھوڑا جھک کر شیشے کو دو انگلیوں سے بجایا۔ وہ جو سر ٹکائے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی فوراً اٹھی۔ جنید کے اشارہ کرنے پر وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ جنید نے چھتری اسے پکڑا دی۔
”امام مسجد آپ کو بلا رہے ہیں۔۔“ جنید نے بارش سے بچنے کے لیے سر پر دونوں ہاتھوں کا سایہ کرتے ادب سے کہا اور فجر ایک ہاتھ میں چھاتہ تھامے جبکہ دوسرے سے سر پر دوپٹہ درست کرتی آگے بڑھی۔ جنید نے گاڑی لاک کی اور وہ دونوں اندر آگئے۔ جنید بارش سے بچتے بھاگتے ہوئے اندر پہنچ گیا تھا جبکہ مسجد کے سرخ صحن میں، شفاف پانی کے درمیان، ننگے پاؤں چلتے، فجر نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی زندگی میں ایسا کوئی پل آئے گا۔ کچھ دیر بعد وہ اندر ان تینوں سے ذرا سے فاصلے پر بـٹھی تھی۔ ولیم کی دی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس نے ولیم کو دیکھا تو حیرانی ہوئی اسکے سر پر کیپ نہیں تھی۔ اس کے بالوں کا رنگ اسکی آنکھوں جیسا تھا۔ کتھئی۔۔۔ گہرا۔۔۔بالکل درخت کی سوکھی لکڑی جیسا۔
اور اسکے بال گھنے تھے جو کچھ پیچھے سیٹ تھے کچھ ماتھے پر گر رہے تھے۔ وہ بیگی پینٹ پر بالوں اور آنکھوں سے ہم رنگ موٹی اونی شرٹ پہنے ہوئے، پالتی مارے بیٹھا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے جنید بیٹھا تھا۔ چاروں جانب جلتے برقی قمقموں میں اُسکا چہری چمک رہا تھا۔ وہ پہلی بار اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ لمبی گردن، گلے میں ابھرتا
Adam Apple
، کسی بھی قسم کی داڑھی سے صاف چہرہ، روشنی پیشانی اور چمکتی آنکھیں۔ اسکی
Jawline
بہت شارپ تھی۔ ناک اٹھی ہوئی اور ہاں ٹھوڑی میں پڑتا گڑھا اس نے پہلی بار کسی لڑکے کی ٹھوڑی میں زنخداں دیکھا تھا۔ وہ جنید کی کسی بات پر مسکرایا تو بھلا لگا۔
پر جو دل میں رہتے ہیں ان کے آگے سب ہیچ لگتا ہے۔
اب نظریں اسکے ہاتھوں تک آئیں۔ رگیں تھوڑی سی ابھری ہوئیں تھیں۔ لمبی انگلیوں والے صاف ہاتھ جو اسکی اوور سائزڈ شرٹ میں آدھے چھپے ہوئے تھے۔ وہ فجر کو اس وقت کسی بھی قسم کی پریشانی سے آزاد لگا۔ کسی بھی قسم کے دباؤ سے کسی بھی قسم کے منفی اثر سے۔۔۔۔وہ آزاد تھا۔ وہ پریشان بھی نہیں تھا۔ وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا۔۔۔؟؟؟
اور تبھی فجر جی نظر اس کے سینے پر ٹنگی چھوٹی سی مشین پر پڑی۔ ولیم نے اس چھوٹی سی ریکارڈنگ مشین کو اپنے بائیں جانب دل کے مقام پر لگا رکھا اور اسکی لمبی تار نیچے پہلو کے قریب رکھی ٹیپ ریکارڈر سے جڑی تھی۔ وہ یہ تجربہ پہلی بار خود پر کر رہا تھا وہ اپنے ہی دل کی دھڑکن سننا چاہتا تھا۔ وہ اسے ریکارڈ کرنا چاہتا تھا اس سارے تجربے کے دوران۔ ہاں وہ عجیب ہی تھا۔
امام نے ایک نظر فجر کو دیکھا۔
”میں شروع کرنے لگا ہوں اور آپ کو اس بلایا تاکہ آپکے سامنے سب ہو۔۔“ وہ کچھ نہ بولی۔ ہال میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگے پلر میں سے ایک کے ساتھ پشت ٹکائے بیٹھی رہی۔ ابا کا خیال آیا دل سکڑ کر پھیلا پر اگلے ہی پل اماں کی بددعائیں یاد آئیں تو نفرت کی لہر پورے جسم میں پھیل گئی۔
امام مسجد اب بسمہ اللہ پڑھ رہا تھا۔ ولیم نے ایک نظر اٹھا کر فجر کو دیکھا۔ بیوٹی ان وائٹ اسکی جیکٹ پہنے ہوئے تھی۔ وہ اسکے بھروسے یہاں آئی تھی اور اگلی ہی نظر اس نے پہلو میں رکھے اپنے ہاتھوں پر جمالی۔
”میں گواہی دیتا ہوں نہیں کوئی معبود سوائے اللّٰہ کے۔۔۔“
اس نے ولیم کو امام مسجد کے پیچھے اپنے برٹش لہجے میں دہراتے سنا اور تبھی بیگ میں رکھا فون تھرتھرایا۔ وہ بند ہی نہیں ہورہا تھا۔
اس نے بیگ سے نکالا تو ارسل لکھا چمک رہا تھا۔ فجر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ ارسل کے نام کے ساتھ وہ گلابی پھول بھی تھا۔ اس کے ہاتھ کپکپاگئے۔ گھبرا کر چاروں جانب دیکھا کوئی نہیں تھا سامنے ولیم تھا جو شہادہ پڑھ رہا تھا۔۔۔۔ سب آہستہ آہستہ غائب ہونے لگا۔
کیا وہ اسکا فون نظرانداز کر سکتی تھی۔۔۔؟؟ کبھی نہیں۔
کپکپاتے ہاتھوں سے یس کرتے کان سے لگایا۔
”فجر۔۔۔۔“ اور فجر کا دل رک گیا۔ دو دن وہ کتنا تڑپی تھی یہ پکار سننے کے لیے۔ اس پکار پر اسکی دنیا رک جاتی تھی۔ پتھر ہوا دل دھڑکنے لگا۔ وجود کپکپا اٹھا اور آنکھیں بھیگتے چلی گئیں۔ بارش ابھی بھی جاری تھی۔ لیکن فجر کی ساری سماعت فون کے دوسری جانب سے ابھرتی آواز پر جمی تھی۔
فجر نے جان لیا تھا ہم کسی بھی
Love
کو فوراً
Unlove
نہیں کرسکتے۔
یہ اتنا آسان نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ شخص
Love
کی وجہ ختم نہ کردے۔
”اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
”ایم سوری فجر میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔“ وہ بھرائے لہجے میں بولا۔ فجر نے بےساختہ ولیم کو دیکھا۔ امام مسجد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا وہ جنید کی کسی بات پر مسکرایا۔
”میرے پاس ایک آپشن ہے ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔۔۔“ وہ جلدی جلدی بول رہا تھا۔
”ہم دونوں کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ کسی کو نہیں بتائیں گے۔ میں تمہیں خوش رکھوں گا اور بابا کو بھی۔ بس تم تھوڑا کمپرومائز کر لینا۔۔“ وہ پتا نہیں کس کمپرومائز کی بات کر رہا تھا۔ فجر کے الفاظ گلے میں ہی اٹک گئے۔
”فجر بس ہمیں ہمیشہ کے لیے یہ شادی چھپانی ہوگی۔ میں بابا کو اُنکی پسند سے شادی کرکے خوش کردوں گا یوں وہ بھی خوش ہم بھی خوش۔۔۔“ شاید اسے اپنی ساری کوشش کے باوجود آخری حل یہی ملا تھا۔ فجر کے وجود میں کسی نے نیزے گھسا دیے۔ تکلیف سر سے پاؤں تک گئی۔
”پلیز کچھ تو بولو۔۔۔؟؟“ آواز ابھری اور فجر نے ہولے سے فون کاٹ دیا۔ اس نے نظریں اٹھا کر ولیم کو دیکھنا چاہا پر سب دھندلا گیا۔ اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔ وہ رونا چاہتی تھی پر ابھی نہیں۔ پھر اس نے ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑ ڈالیں۔ خوبصورت آنکھوں کا رو رو کر حشر نشر ہوچکا تھا۔
"Come..."
ولیم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اٹھ کر قریب آنے کا کہا۔ وہ روبوٹ کی طرح اٹھی اور جا کر قریب بیٹھ گئی۔ ارسل نے دل کی تکلیف پھر سے بڑھا دی تھی۔
وہ اسکے ساتھ شادی تو کر سکتا تھا پر اپنا نہیں سکتا تھا۔ وہ ظالم تھا یا کم ظرف؟؟ وہ سمجھ نہیں پائی۔
”بیٹی تمہارے ماں باپ کہاں ہیں؟؟“ امام صاحب نے براہ راست پوچھا۔
”نہیں ہیں۔۔۔۔“ ٹھنڈہ ٹھار لہجہ۔ امام مسجد نے اثبات میں سرہلا دیا۔ یہ کہتے اسکا دل ذرا بھی نہیں کانپا۔
”تو تم دونوں شادی کرنا چاہتے ہو؟؟“ ایک اور سوال آیا۔
فجر نے ولیم کا دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ زبان تو سمجھ نہیں آرہی تھی پر وہ تاثرت سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تم چاہو تو میں نکاح کا اہتمام کروا سکتا ہوں۔۔۔“ وہ ہولے سے بولے۔ لڑکی کے گھر والے نہیں تھے وہ اسکے ولی بننے کو تیار تھے۔
”ہم کورٹ میرج کرنا چاہتے ہیں۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔“ انہوں نے پھر سے سر ہلایا۔ جنید خاموش بیٹھا رہا وہ امام مسجد کی مصلحت سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تو میں کیا آپ لوگوں ایجاب و قبول کروا سکتا ہوں۔۔؟؟“ جانے امام صاحب خود کیوں کروانا چاہتے تھے۔ وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ پھر اس نے اجازت دے دی۔ امام مسجد نے دوسرے امام کو بلایا جو نوجوان تھا اور امام مسجد کی صحبت میں رہ کر سیکھ رہا تھا۔
جنید اور وہ لڑکا اب دو گواہ موجود تھے۔ امام اب ولیم سے اُسکے نکاح کی بابت پوچھ رہے تھے جبکہ فجر جسمانی طور پر تو وہاں موجود تھی پر ذہن ارسل کی باتوں میں اٹکا تھا۔ اس نے ایک بار پھر گہری چوٹ دی تھی۔ اس نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلادیا۔ امام اب ولیم کی جانب متوجہ ہوئے۔
”ولیم ولی احمد کیا تمہیں فجر معراج بنت معراج الدین اپنے عقد میں قبول ہے؟؟“
ولیم کو سمجھ نہیں آیا۔ جنید نے ترجمہ کیا پر امام کا لہجہ اور انکا انداز ایسا تھا کہ ولیم پل بھر کو ساکت ہوا۔ اس نے فجر کو دیکھا۔ بال اب پونی میں بندھے ہوئے تھے۔ سفید کپڑوں میں ملبوس فجر اسے زندہ لاش لگی۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی پھر امام کے دوبارہ پوچھنے پر وہ کسی خواب سے جاگی۔
کیا وہ صرف بدلا لینے کے لیے یہ سب کر رہا تھا؟؟؟ فجر نے بھیگی پلکیں اٹھا کر ولیم کو دیکھا سرخ متورم زخمی آنکھیں، اور ولیم نے اپنے سینے میں دل کو رکتے اور دھڑکتے پایا۔ وہ
Breathtaking
تھی۔ وہ اُسکی سانسیں کنٹرول کر رہی تھی۔
”قبول ہے۔۔۔۔!!“
اللّہ تعالیٰ اور اُسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ولیم نے فجر معراج کو قبول کرلیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
بارش جس قدر ٹوٹ کر برسی تھی سب کچھ جل تھل ہوگیا تھا اور اُسکے بعد ایک بار پھر خاموشی چھاگئی تھی۔ وہ تینوں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے اب کورٹ کی طرف جارہے تھے۔ ولیم کے لیے یہ احساس عجیب تھا جبکہ فجر ابھی تک خود کو ارسل کی باتوں سے نہیں نکال پائی تھی۔
”ْانکل کہہ رہے تھے آج ہی سارا کام ہونا مشکل ہے اور کافی پیسے لگیں گے۔۔“ جنید آہستگی سے بولا۔ وہ فجر کی موجودگی میں ویسے ہی غیر آرام دہ محسوس کر رہا تھا۔
”میں پیسے دوں گا بس کام آج ہوجائے۔“ ولیم سامنے دیکھ رہا تھا۔ ناک کی عین سید میں۔ کیونکہ وہ ہیولا اب فجر کے قریب پیچھے بیٹھا تھا۔
” ہاں تمہارے باپ کا پیسہ ہے تم کیوں نہیں دو گے؟؟“
ہیولے نے سرگوشی کی۔ استہزائیہ سرگوشی۔
”یہ میرے پیسے ہیں میرے باپ کے نہیں۔۔“ وہ غصے سے پھنکارتا ایک جھٹکے سے پیچھے مڑا اور پھر ساکت رہ گیا۔ پیچھے کوئی نہیں تھا۔ فجر اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ تیزی سے پیچھے بھاگتے نظاروں کو دیکھ رہی تھی۔ جبکہ ولیم کے اس طرح چلانے پر وہ دونوں چونک گئے۔
”ایم سوری۔۔۔“ وہ خفت سے سرخ پڑا اور پھر اپنے ہی چہرے پر بے ساختہ ہاتھ پھیرا۔
”ہاں بھئی پونڈز لیے گھومتا ہے کیوں نہیں دے گا پیسے۔۔“ جنید زیرلب بڑبڑایا جبکہ ولیم نے سیٹ سے گردن ٹکا کر آنکھیں موندھ لیں۔
”یہ تم کیا کرنے جارہے ہو ولیم؟؟“ وہ اب بائیں جانب کے شیشے سے لٹکی تھی۔کسی بدروح کی طرح۔ جو الٹی چل لیتی ہے۔ دیواروں پر لٹک جاتی ہے۔ بالکل ویسے ہی بس چہرہ اندر تھا جبکہ سفید سلک کا گاؤن ہوا میں لہراتا پچھلی سائیڈ کے شیشے تک جارہا تھا۔ وہ اگلی جانب کے شیشے سے جھانکتی سرگوشیاں کر رہی تھی۔
”یہ لڑکی تمہاری موت ہے ولیم۔ وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔۔“ وہ عجیب تھی۔ کبھی اُسکے ساتھ تو کبھی اُسکے خلاف۔ وہ کچھ اور بھی بول رہی تھی جب ولیم نے بیگ سے ہیڈ فون نکال کر کانوں پر جما لیے اور وہ اُسے غصے سے گھورتی غائب ہوگی۔
✿••✿••✿••✿
کورٹ کی ابتدائی کاروائی کافی لمبی تھی۔ فجر کا شناختی کارڈ جبکہ ولیم کا پاسپورٹ لے لیا گیا تھا۔ انکی تصویریں لی گئی تھیں اور فجر سے سب سے پہلے Free Will کا ”حلف نامہ“ سائن کروا گیا تھا۔ جس میں چند باتیں واضح تھیں۔
وہ اگر گھر چھوڑ رہی تھی تو اپنی مرضی سے۔
وہ اپنی مرضی سے ولیم سے شادی کر رہی تھی۔
کسی نے اسے یہ کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
اسے اغواء نہیں کیا گیا تھا۔
وہ بالغ تھی اور اپنے فیصلے خود کر سکتی تھی۔
اُس نے اِس پورے سلسلے میں اپنے گھر سے کچھ نہیں لیا تھا کوئی پیسہ کوئی زیور کچھ نہیں۔
ولیم کے مسلمان ہونے کے لیے ایک گواہ چاہیے تھا۔ جنید موجود تھا اُس کے بعد خاموشی سے دونوں نے اپنی طرف کی کاروائی مکمل کی۔ کورٹ میرج نکاح نامہ اردو اور انگلش دونوں میں موجود تھے جسے دونوں نے سائن کیا اور انکے کاغذات کی ایک فائل بنا کر جنید کے انکل نے کورٹ میں پیش کی تھی۔
شام ڈھلی اور پھر رات ہوگئی۔ عدالت کی طرف سے منظوری آئی تو دونوں کا نکاح عدالت میں ہی پڑھایا گیا۔
ایسے کیسز عدالت میں روز آتے تھے۔ یہ انکا روز کا کام تھا البتہ ولیم نے اس سلسلے میں اچھی خاصی رقم دی تھی۔ وہ فارنر تھا اور اُس سے پونڈز بٹورے گئے تھے۔ جب وہ دونوں نکاح نامے کی اپنی اپنی کاپی لے کر باہر نکلے تو رات کے آٹھ بج چکے تھے۔
فجر کے پاس اردو جبکہ ولیم کے پاس انگلش والا نکاح نامہ تھا۔
”مبارک ہو بہت بہت ولیم اب تم شادی شدہ ہو۔۔“ جنید نے اُسے گلے لگاتے مبارکباد دی۔ وہ بےساختہ مسکرا دیا۔ آج ایک ہی دن میں اُسے دوسری بار گلے لگایا گیا تھا۔ جبکہ فجر کا دل اب تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
انسان جذبات میں ہر قدم اٹھا لیتا ہے اور جب جذبات کا طوفون گزرتا ہے تب احساس ہوتا ہے کہ وہ کیا کر گزرا ہے۔
لیکن فجر کو پچھتاوہ نہیں تھا۔ اسے پچھتاوہ نہیں تھا کہ اس نے کورٹ میرج کی تھی بس تھوڑا خوف تھا تو ولیم کی طرف سے کہیں وہ اُسکا دعویدار نہ بن جائے۔
وہ ایک جانب کھڑی اُن دونوں کو دیکھتی رہی اور پھر فون نکال لیا۔ دن میں ناجانے کتنی بار اُسے ایک اجنبی نمبر سے فون آیا تھا پر اُس نے نہیں اٹھایا تھا اور جیسے ہی اُس نے فون نکالا ارسل کا نمبر جگمگ کرنے لگا۔
دل پر کسی نے برچھی پھیر دی۔ کیا اُسکے لیے یہ سب کرنا اتنا آسان تھا؟؟ نہیں بالکل نہیں۔۔۔۔
سائن کرتے وقت دل کے ساتھ ساتھ ہاتھ کانپ اٹھے تھے۔
وہ اسے اپنے دل سے بےدخل کر رہی تھی۔
وہ اسے کبھی نہ پانے کے لیے کھورہی تھی۔
وہ اسے کبھی نہ دیکھنے کی قسم اٹھا رہی تھی۔
وہ اسے اپنی محبت سے آزاد کر رہی تھی۔
وہ اسے سوچنے تک کہ سارے اختیارات گنوا رہی تھی۔
یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ دل کتنی بار رویا تھا۔ کتنی بار ٹرپا تھا پر یہ سب تو کرنا ہی تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ یہ ٹھان چکی تھی۔ اور اب پھر سے وہ شخص اسے فون کر رہا تھا۔
شاید یہ آخری بار تھا جب فجر معراج اس شخص کی کی آواز سننے والی تھی جسے وہ اپنا مانتی تھی۔
اس شخص نے فجر معراج کو گنوا دیا تھا یہ خبر بھی تو دینی تھی نا۔
فون کی اسکرین پر انگوٹھا پھیرتے اس نے فون کان سے لگایا۔ جنید اور ولیم کچھ فاصلے پر کھڑے جانے کیا ڈسکس کر رہے تھے۔ وہ ولیم کو اُسکی جیکٹ لوٹا چکی تھی جسے ولیم نے اپنے بیگ میں ڈال لیا تھا۔
”ہیلو فجر۔۔۔“ ارسل کی بےچین سی آواز ابھری۔ اسکا گلا بھاری تھا۔ شاید وہ بھی رویا ہوگا۔ فجر کا دل مٹھی میں آیا۔
جانے کتنے پل خاموشی چھائی رہی۔ فجر نے آس پاس کے نظاروں کو دھندلا ہوتے محسوس کیا۔ بیگ کندھے پر لٹکائے اور چادر کو اچھے سے خود پر لپیٹے اسے اپنے آپ وہاں کھڑا بہت اجنبی سا لگا۔ ایسی تو کبھی خواہش نہیں کی تھی اس نے۔ وہ تو بہت دھوم دھام سے اپنی محبت کے سنگ جانا چاہتی تھی۔ ڈنکے کی چوٹ پر۔ پر جب محبت ہی دغا دے جائے تو پھر کیسی شکایت؟؟؟
اس نے آنسوں کو اندر پیتے سر اٹھا کر آسماں کو دیکھا۔
“کچھ تو بولو فجر تمہاری خاموشی مجھے مار رہی ہے۔۔“ وہ شکست خوردہ بولا۔
“تو سنیے ارسل برہان صاحب سنیے۔۔۔“ لہجہ سرد رکھا گیا۔ آنکھیں جل رہی تھیں پر اب اُسکے سامنے کیا رونا جو کچھ بھی نہیں تھا۔
”میں فجر معراج ایک مڈل کلاس لڑکی جسکے ڈھیر سارے مسائل تھے۔ مجھے اپنے مسائل کا سدباب کرنا تھا مجھے اُُنکا حل نکالنا تھا پر میں نے فرار ڈھوند لیا۔ میں نے محبت کرلی۔“ آنکھوں سے آنسوں بھل بھل بہنے لگے تھے۔ جسم میں کپکپاہٹ تھی۔ ہونٹ خشک پڑ چکے تھے۔ وہ خود پر ہی استہزائیہ ہنس دی تھی۔
”پتا ہے میری زندگی عذاب تھی پھر تم آئے۔۔۔“
وہ آپ سے تم پر آئی۔ ارسل ساکت ہوا۔
”تم ہوا کا ٹھنڈہ جھونکا تھے پر مجھے نہیں پتا یہ ہوا مجھے جھلسا کر رکھ دے گی۔۔۔“ وہ ہولے ہولے بول رہی تھی۔ سسکیوں کا گلا گھونٹتے۔
”فجر۔۔۔“ وہ بےیقینی سے بولا۔
”ارسل تم میرا سکون تھے لیکن مجھے نہیں پتا تھا تم مجھے زندگی بھر کی تڑپ دے جاؤ گے۔۔۔“
”ارسل تم میرا جنون تھے پر مجھے نہیں پتا تھا تم مجھے سسکتا چھوڑ جاؤ گے۔۔۔“
”ارسل تم میرا غرور تھے پر مجھے نہیں پتا تھا تم مجھے ہمیشہ کے لیے توڑ دو گے۔“
”ارسل تم میرا مان تھے پر مجھے نہیں پتا تھا تم مجھے آسمان سے زمین پر پٹخ دو گے۔۔“
”میں نے کسی کو دیکھا تو صرف تمہیں، کسی کو سوچا تو صرف تمہیں، کسی کی خواہش کی تو صرف تمہاری، کسی کا دل توڑا تو صرف تمہارے لیے، میں نے فجر معراج کو تمہارے نام لکھ دیا تھا ارسل۔۔۔۔۔ارسل تھا تو فجر تھی۔۔“
دل کٹتا گیا۔ تکلیف حد سے سواء ہوئی۔ خون رسنے لگا پر وہ کھڑی رہی۔ آس پاس لگے اسٹریٹ پولز کی روشنی میں اسکے آنسوں واضح دیکھے جا سکتے تھے۔
”میں تمہارے لیے پوری دنیا سے لڑ رہی تھی اور تم میرے لیے اپنے خاندان سے نہیں لڑ پائے؟؟“
وہ اپنا پاؤں چھڑاتا جا رہا تھا۔ فجر نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”تمہیں میرا خیال آیا بھی تو ایک آپشن کے طور پر؟ ایک دوسری عورت کے طور پر جسے چھپا کر رکھا جاتا۔۔۔؟؟
کیا تم بھول گئے تھے کہ فجر اُجالا لاتی ہے اُسے چھپا کر نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔؟؟“ وہ خود کو زخمی کر رہی تھی اور زخم ناسور بننے والا تھا۔
”فجر ایم سوری۔۔۔“
”جہاں تم پاؤں دھرتے وہاں میں اپنا دل رکھنے کو تیار تھی۔ میں نے صرف محبت نہیں کی تھی میں نے اپنے اندر تمہارا بت سجا لیا تھا۔ میں نے تمہیں بہت بڑا مقام دیا تھا ارسل تمہیں راس نہیں آیا پھر اس بت کا ٹوٹنا تو لازم تھا نا۔۔۔“ لہجے میں پھر استہزاہ تھا۔
گارڈز اسے پکڑ کر باہر نکال رہے تھے۔ وہ اسے دھکے دے رہے تھے۔ وہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔ محبت اپنے مقام سے گری اور کرچی کرچی ہوگئی۔
”اماں کہتی رہی کہ مرد اُس عورت کا نہیں ہوتا جو اُسکی ہوجائے جو اُسے مفت میں مل جائے۔۔۔“
”فجر ایسے مت بولو۔۔“ وہ تڑپ گیا۔
”میں نے اماں کا یقین نہیں کیا ارسل۔ میں نے کتنا غلط کیا۔۔“
”میں تم سے ابھی شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ پلیز مجھے ایک موقع اور دے دو۔۔۔“ اسپیکر سے آواز اُبھری اور فجر کی نظر اٹھی۔
سامنے ہی ولیم جنید کے ساتھ کھڑا تھا۔ جنید اب اسے اپنی گاڑی کی چابی پکڑا رہا تھا۔ ولیم نے فجر کو دیکھتے کلائی کی جانب اشارہ کیا اور پھر ہوا میں داہنے ہاتھ سے اڑتا ہوا جہاز بنایا۔ اسکی فلائٹ تھی۔ اسے جانا تھا پر کیا ایسے ہی؟؟ وہ ہاتھ میں چھاتہ لیے کھڑا تھا۔
”فجر نہیں میں مسز فجر ہوں اب۔۔۔۔“ اس نے گویا دھماکہ کیا۔ پھر آسمان کی جانب دیکھا۔ تیز ہوا کے ساتھ بارش کی پھوار پڑتی محسوس ہوئی۔ یوں جیسے قدرت نے گواہی دی ہو کہ وہ اب مسز فجر تھی۔
”مبارک ہو ارسل برہان گردیزی تم نے مجھے کھو دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ میں اب شادی شدہ ہوں میرا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دو اپنے باپ کی پسند سے شادی کرکے انہیں خوش کرو۔محبت تمہارے نصیب میں نہیں تھی۔“
آنسوں ہتھیلی سے رگڑ ڈالے۔ جو دل میں تھا سب کہہ دیا تھا۔ فون ٹک سے بند کردیا اور پھر ارسل کا نمبر ڈیلیٹ کرکے اسے بلاک کردیا۔ ایک ایک عمل اسے اتنی ہی تکلیف پہنچا رہا تھا پر اسے کرنا تھا۔ وہ فون کو ہاتھ میں تھامے گم سم سی کھڑی رہی۔ دل خالی ہوگیا۔ سب ختم ہوگیا۔ پر ایک نئے آغاز سے وہ ناواقف تھی۔ ولیم چلتا ہوا اُسکے قریب آیا اور چھاتہ کھول کر اُسکے اوپر کردیا۔ وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ فجر نے چونک کر سر اٹھایا۔ سرخ متورم آنکھیں اور بھیگی پلکیں۔ پھڑپھڑاتے لب۔ چھاتہ پکڑے کیپ اوڑھے، کتھئی آنکھوں سے اسے دیکھتا ولیم اور برقی روشنیوں میں چمکتے بارش کے قطرے۔۔۔۔!!
کلک کی آواز ابھری۔ بارش کے قطرے ہوا میں ہی ٹھہر گئے اور وہ دونوں جُنید کے ہاتھ میں پکڑے کیمرے میں قید ہو کر رہ گئے۔
”یہ تمہارے لیے۔۔“ اُس نے ایک سیاہ ٹیپ ریکارڈ فجر کی جانب بڑھائی۔ فجر نے بھنویں سکیڑ کر دیکھا۔ آنکھوں سے ہی پوچھا گیا۔ ”کس لیے؟“
”میں نے سنا ہے شادی کے بعد ہسبنڈ اپنی وائف کو گفٹ دیتا ہے۔مجھے ایسا کچھ قیمتی نظر نہیں آیا جو تمہیں دے سکوں۔ ہاں پر یہ میرے لیے بہت خاص ہے میرے دل کے قریب۔ شاید تمہارے کام آجائے۔۔“ وہ ابھی بھی ٹیپ اُسکی جانب کیے کھڑا تھا۔ فجر کچھ تذبذ کا شکار ہوئی پھر اُس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیپ تھام لی۔ ولیم مسکرادیا۔
”تو اب؟؟ تمہیں گھر نہیں جانا۔۔؟؟“ وہ لمبا تھا تھوڑا سر جھکائے کھڑا تھا۔
”میں چلی جاؤں گی۔۔“ یوں جیسے اُسے جانتی ہی نہ ہو۔
”میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔۔“ وہ چمکتی آنکھوں سے آفر دے رہا تھا اور نظریں اُسکی بھیگی لرزتی پلکوں پر جمی تھیں جو رخساروں پر سایہ فگن تھیں۔
”اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔“ روکھا سا جواب۔
”لیکن مجھے لگتا ہے اسکی ضرورت ہے۔۔“ ڈھٹائی سے بار بار کہتا ولیم۔ فجر کے نقوش تن گئے۔ وہ اب سر پر سوار ہورہا تھا۔
"I am your husband, You should consider my wishes..."
(میں تمہارا شوہر ہوں تمہیں میری خواہشات کا خیال کرنا چاہیے۔۔!!)
اُس نے نہیں کہا تھا کہ تمہیں ”میرا حکم“ ماننا چاہیے وہ تو بس اپنی خواہش رکھ رہا تھا۔
اور اب یہ زیادہ ہورہا تھا۔ فجر نے گھور کر دیکھا جیسے ابھی کچا چبا جائے گی اور اسکے یوں دیکھنے پر ولیم سٹپٹا گیا۔
"I just google it..."
”میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا ہے۔“ گڑبڑا کر کہتے فون والا ہاتھ اوپر اٹھایا اور صفائی۔ یعنی گوگل پر لکھا تھا کہ بیوی کو شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے۔ خاموشی چھا گئی۔
اس لڑکی سے بات کرنا اتنا مشکل کیوں لگ رہا تھا۔
”میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔ بھابھی کو چھوڑ کر جلدی آنا۔۔۔“ جنید اسے آگاہ کرتا اُسکا کیمرہ لے کر چلا گیا۔ شاید وہ لوگ طے کر چکے تھے کہ فجر کو گھر چھوڑ کر انہیں دوبادہ کہاں ملنا تھا تاکہ ایئرپورٹ جایا جاسکے۔
لفظ بھابھی پر فجر کی آنکھیں حیرت اور بےیقینی سے پھیلیں۔ جبکہ ولیم نے امڈ آنے والی بےساختہ مسکراہٹ کو چھپایا۔ مبادہ کہیں قریب کھڑی فجر دیکھ ہی نہ لے اور اُسے یہیں پاکستان میں دفن ہونا پڑے۔
”چلیں۔۔؟؟“ پھر سے پوچھا۔
”میں چلی جاؤں گی اب تم میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔“ وہ کوفت زدہ لہجے میں بولی۔ آج کا دن کتنا لمبا ہوگیا تھا ختم ہی نہیں ہوا تھا اور اب رات کا اندھیرا دل ہولا رہا تھا۔
”میں نے تمہارے لیے اتنا سب کیا۔ کیا تم میری ایک بات نہیں مان سکتی؟؟“ احسان جتا کر فوراً شکوہ کردیا گیا۔ فجر نے ہونٹ بھینچے۔
”دیکھو بارش پھر سے شروع ہونے والی ہے مجھے لگتا ہے ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔“ وہ اسے کہتا گاڑی کی جانب بڑھا اور فجر کو بھی ناچار قدم بڑھانے پڑے۔ کچھ دیر بعد گاڑی ایک بڑی کھلی شاہراہ پر آگے بڑھ رہی تھی۔ بارش بہت ہلکی تھی۔ لیکن گاڑی کی ونڈ اسکرین پر چلتا وائپر تیزی سے پانی صاف کر رہا تھا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ دماغ نے کچھ کام کرنا شروع کیا تو آنے والے وقت کا سوچنے لگی۔ پہلو میں ہاتھ رکھے وہ کسی خاموش مورت کی طرح بیٹھی تھی۔
”تم مجھ سے کچھ کہو گی نہیں؟؟“ اسکی خاموشی بری لگ رہی تھی۔ وہ بول پڑا۔
”تھینکس۔۔۔“ یک لفظی جواب۔ وہ مسکرادیا۔ آج جانے کتنی بار مسکرا لیا تھا۔ پاگل نہ ہو تو۔
”اور کچھ۔۔۔؟؟“ کیا سننا چاہ رہا تھا وہ؟؟
”کچھ نہیں۔۔۔“ وہ رخ موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔
”تمہارا نام خوبصورت ہے۔ میں نے گوگل کیا تھا۔ اسکا مطلب دیکھا اور مجھے پسند آگیا۔۔۔“ وہ ایکسٹرورٹ تو نہیں تھا پھر بھی بولے جارہا تھا۔
”ویسے تمہارا نام فجر نہ ہوتا تو جانتی ہو کیا ہوتا؟؟“ دلجمعی سے ڈرائیونگ کرتے وہ بولتا گیا اور ایک نظر موبائل میں کھلے گوگل میپ پر ڈال لیتا۔ فجر نے رخ موڑ کر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"Breath-taking.."
ذرا سا رخ موڑ کرفجر کو دیکھا جس کا چہرہ پل کے ہزارویں حصے میں کان کی لوؤں تک سرخ پڑا۔ کیا یوں کوئی منہ پھاڑ کر تعریف کرتا ہے؟؟ اور اگلے ہی پل اسکے چہرے پر ناگواری ابھری۔ وہ پھر سے رخ موڑ گئی۔
”ویسے میری دس بجے کی فلائٹ ہے میں
Edinburgh
واپس جارہا ہوں۔“
”کبھی پلٹ کر مت آنا۔۔۔“ سفاک لہجہ۔ گہری خاموشی چھاگئی۔ وہ کس حق سے اُس سے یوں باتیں کر رہا تھا۔ اور لہراتے بالوں والا ہیولا اب پچھلی سیٹ پر آکر بیٹھ چکا تھا۔ بیک مرر سے نظر آتا اسکا وجود واضح تھا۔ وہ اس پر ہنسی تھی۔ قہقہہ لگایا تھا۔
”ہاں میں کبھی نہیں آؤں گا۔ جو کام تھا وہ پورا ہوگیا۔۔“ وہ بھی اسی لہجے میں بولا۔ کتھئی آنکھوں کی چمک ماند پڑگئی۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔ فجر نے حیرت سے چاروں جانب دیکھا۔ دائیں جانب ایک بیکری اور کافی شاپ تھی۔
”مجھے بھوک لگی ہے تم کچھ کھاؤ گی؟“ سنجیدہ لہجہ تھا۔ وہ اب خود پر ضبط کر رہا تھا۔ خود کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔
”نہیں۔۔“ یک لفظی جواب آیا۔
”میں دوبارہ نہیں پوچھوں گا۔ کچھ چاہیے تو بتادو۔ ویسے بھی ولیم جوزف ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتا۔۔“ لیکن اس پر ایک ہی دن میں کافی پیسے لگادیے تھے کافی مہربانیاں کردی تھیں۔ فجر نے گہرا سانس لیا اور پھر ہولے سے بولی۔
”کولڈ کافی۔۔۔“
”ہنہہ اتنی ٹھنڈ میں کولڈ کافی۔ آگ نکالے گی منہ سے پھر کولڈ کافی ضرورت تو پڑے گی نا۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑاتا باہر نکل گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ واپس آتا دکھائی دیا۔ دونوں ہاتھوں میں کافی کے مگ تھامے۔ اسکی جانب آکر اشارہ کیا۔ فجر نے شیشہ نیچے کیا تو پہلے اسے پکڑایا اور پھر اپنی جانب آکر دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے لیے بھی کولڈ کافی ہی لایا تھا۔ سینے میں جلتی آگ دونوں کو بجھانی تھی۔
”کتنے کی ہے؟؟“ وہ اس سے کافی کی قیمت پوچھ رہی تھی۔ ولیم کی بھنویں سکڑ گئیں اس نے حیرت سے فجر کو دیکھا اور پھر اُبھرنے والا قہقہہ بےساختہ تھا۔
”تم جانتی ہو میرے آج دن میں کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں؟؟ کیا تم سب ادا کردو گی؟؟“ وہ سلگانے والے انداز میں بولا۔
”ہاں دے دوں گی ویسے بھی فجر معراج کسی کا احسان نہیں رکھتی۔۔۔“ تڑخ کر جواب دیا گیا۔ وہ اب کافی کے مگ میں پائپ ہلاتی اسے پگھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ زیادہ ہی آئس کریم ڈال دی گئی تھی۔ ولیم نے اپنے دوسرے قہقہے کو دبایا۔
”کب۔۔؟؟“ پرشوق نگاہوں سے پوچھا گیا۔
”جب ہوں گے۔۔“ انداز بےنیاز تھا۔ وہ محظوظ ہوا۔
”ابھی تو میں جارہا ہوں۔ پیسے لینے تو مجھے واپس آنا پڑے گا۔۔“ اس سے بات کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ وہ بات بڑھا رہا تھا۔
”آجانا اور طلاق بھی دے جانا۔۔۔“ پائپ ہلاتا ولیم کا ہاتھ ساکت ہوا۔ کہہ تو وہ ٹھیک رہی تھی۔ یہ شادی ہمیشہ تھوڑی رکھنی تھی انہیں۔ پر ابھی طے نہیں ہوا تھا کب تک رکھنی تھی پھر طلاق کا ذکر کیوں؟؟ اس نے بےچینی سے بہلو بدلا۔
کافی کا مگ اپنے اور اسکے درمیان اچھے سے ٹکا کر رکھ دیا اور پھر گاڑی چلادی۔ وہ رخ موڑے خاموشی سے کافی پی رہی تھی۔
”اب تم کیا کرو گی؟؟“ وہ کیا جاننا چاہ رہا تھا۔
”زندگی آگے بڑھاؤں گی۔۔“
”کبھی میری ضرورت پڑی تو؟؟“
”نہیں پڑے گی۔۔۔“
”مجھے بلا لینا میں شاید آجاؤں۔ ویسے بھی پیسے لینے آنا ہی ہے۔۔“
”ہنہہ۔۔۔گندی نیت والا فارنر۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔ باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا۔ فجر نے نہیں پوچھا وہ کیا کرتا تھا؟؟ وہ پاکستان کیوں آیا تھا؟؟ وہ پورا انگریز کیوں نہیں لگتا تھا؟؟ سب سے بڑھ کر ایک بار کہنے پر اس سے شادی کیوں کرلی تھی؟؟ کلمہ کیوں پڑھ لیا تھا؟ اسے شاید دلچسپی ہی نہیں تھی۔
”بس گاڑی یہیں روک دو۔۔۔“ مرکزی سڑک سے اتر کر گاڑی اب گلی کے نکڑ پر کھڑی تھی۔ ارسل اسے یہیں اتارا کرتا تھا۔بیوٹی ان وائٹ جارہی تھی۔ وہ پھر کبھی نہیں ملنے والے تھے۔
”یہ میرا کارڈ۔۔“ ولیم نے اپنا وزٹنگ کارڈ اسکی جانب بڑھایا۔ سفید رنگ کا وہ چھوٹا سا کارڈ جس پر اسکی مکمل تفصیلات تھیں اور ساتھ میں رابطہ نمبر۔
”کس لیے؟؟“ وہ اُلجھی۔
”شاید کبھی ضرورت پڑ جائے۔ شاید تم کبھی اپنے ہسبنڈ کی یاد آئے۔۔“ سنجیدہ بات کرتے آخر میں لہجہ شرارتی ہوگیا۔
فجر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں۔
شوہر کے نام پر اُسے صرف ارسل کا خیال ابھرتا تھا۔ جو اب تکیلف دہ تھا وہ شخص کس دھڑلے سے اسکی تکیلف بڑھا رہا تھا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے مسٹر ولیم؟؟ پاکستانی کڑوڑوں مردوں کو چھوڑ کر تم سے شادی کیوں کی میں نے؟؟“ وہ سرد لہجے میں بولی۔ آواز اونچی تھی۔ چہرہ سرخ اور آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھے گیا۔ ویسے تو اسے فرق نہیں پڑتا تھا پر اب جاننا چاہتا تھا اس نے ولیم کو ہی کیوں چُنا؟
”کیونکہ تم سات سمندر پار واپس چلے جاؤ گے اور دوبارہ کبھی مجھے تمہاری شکل نہ دیکھنی پڑے۔۔۔۔۔“ کتنی سفاکیت سے بولی تھی۔ بیوٹی ان وائٹ اب
black witch
لگنے لگی تھی۔
”یہ کورٹ میرج صرف یہ سمجھوتہ تھا۔ میں نے شرائط نہیں رکھیں اس کا مطلب یہ نہیں میں تمہیں شوہر قبول کرچکی ہوں۔ یہ کھیل آج کا تھا اور صرف اس پیپر (نکاح نامہ) کے لیے تھا جو ایک تمہارے پاس ہے اور ایک میرے۔۔۔“
بیوٹی ان وائٹ یہ سب بولتی بری لگ رہی تھی اور ولیم جبڑے بھینچے اسے سنتا گیا۔ اُس نے بھی صرف اِس پیپر کے لیے یہ سب کیا تھا۔ وہ ایک پیپر جو دونوں اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والے تھے۔
اُسے بھی تو کسی کی چھوڑی ہوئی لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ دونوں مفاد پرست تھے پر توقعات کیوں بڑھ رہی تھیں؟ اُسے تو یہ تک بھول گیا تھا کہ اُس نے آج کلمہ پڑھا تھا۔ وہ ولیم جوزف سے ولیم ولی احمد بنا تھا۔
”یہ سفر یہیں تک تھا۔۔۔“ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل جانا چاہتی تھی پر دروازہ لاکڈ تھا۔ ولیم کی دی وہ ٹیپ اسکے بیگ میں تھی جس میں اسے ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اس ٹیپ کو جانے کہاں پھینکنے والی تھی۔
”میں جانتا ہوں یہ سب یہیں تک تھا اور مجھے بھی اس کاغذی شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے پر ہاں میرا کارڈ رکھ لو جب پیسے ہوں مجھے فون کرلینا میں اکاؤنٹ نمبر دوں گا لوٹا دینا۔۔“
ہک ہاہ۔۔۔گہری خفت نے آگھیرا۔ وہ کیا سمجھ رہی تھی اور کیا نکلا تھا۔ جھٹکے سے مڑی اور کارڈ جھپٹ لیا پر گود میں رکھا بیگ اسی لمحے نیچے گرگیا۔ چیزیں بکھر گئیں۔
فٹافٹ جھک کر ایک ہاتھ سے چیزیں اٹھائیں اور پھر سر سیدھی ہو کر گہرا سانس لیا۔ سیٹ سے گردن ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔
ولیم یونہی بیٹھا رہا۔ کافی یونہی رکھی رہی۔
”ایم سوری۔۔۔“ ہولے سے بڑبڑائی۔ آنکھیں بند تھیں۔
وہ یونہی ہونٹ بھینچے بیٹھا رہا۔
”دیکھو میں نے شادی صرف اپنے مفاد کے لیے کی ہے۔ اپنی ضد میں۔ تم چاہو تو ابھی طلاق دے سکتے ہو۔ مجھے اس شادی میں دلچسپی نہیں۔ مجھے فرار کا ایک راستہ چاہیے تھا تاکہ مجھے کسی اور کو نہ چننا پڑے۔۔“ لہجہ بھرا گیا۔
”میں کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ تمہیں کل کسی سے محبت ہوگئی تمہیں دوسری شادی کرنی ہوئی پھر کیا کرو گی؟؟“ اسکی بات میں دم تھا۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ فجر ایک ہی غلطی بار بار نہیں دہراتی۔ میں ہمیشہ ایسے ہی رہ لوں گی۔۔“ مضبوظ لہجے میں جواب دیا گیا۔ ولیم گلاس ونڈ کے اس پار جانے کیا کھوج رہا تھا۔ پیچھے بیٹھا ہیولا جو خاموش تھا اب پھر سے ہنسی کی آواز ابھری۔ آج وہ خاموش تھی۔ان دونوں کی سن رہی تھی۔
”میرے پاس تمہارا کارڈ ہے جب مجھے خلع چاہیے ہوگا میں کنٹیکٹ کرلوں گی۔۔“ اور ولیم نے بٹن دبا کر گاڑی کا لاک کھول دیا۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا دیکھنا بھی نہیں تھا۔
ہاں اب اسے یقین ہوگیا تھا فجر معراج نے یہ شادی اپنے مطلب کے لیے کی تھی۔ دل کو سکون سا ملا۔ یعنی وہ دونوں ایک ہی لکیر پر کھڑے تھے۔ ایک کونے پر وہ اور دوسرے پر فجر۔۔۔درمیان میں سات سمندر کا فاصلہ تھا۔ دونوں کو فرق نہیں پڑتا تھا دوسرا کہاں جانے والا تھا کیا کرنے والا تھا۔
”ٹھیک ہے آئندہ آنے والی زندگی کے لیے گڈ لک۔۔۔“ وہ سنجیدہ سا مسکرایا تو فجر کافی کا مگ واپس رکھتے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکل گئی۔ کافی بچی ہوئی تھی۔ وہ دروازہ بند کرکے جارہی تھی۔ خدا حافظ بھی نہیں کہا۔ پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ فجر معراج کی زندگی میں ولیم نامی یہ باب آج ہی کھلا اور آج ہی بند ہوگیا تھا۔ ولیم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر تیزی سے گاڑی ریورس کی۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی بھگا لے گیا۔
بارش برسنے سے کیچڑ ہوچکی گلی میں وہ بنا کسی احتیاط کے چلتی جارہی تھی۔ اس بات سے بےخبر کہ ایک طوفان اُسکا منتظر تھا۔
✿••✿••✿••✿
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ReplyDelete♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ReplyDeleteNext episode please
ReplyDeleteNext episode link please
ReplyDelete