William Wali Episode 4 (part 02) by Noor Rajput

 

a urdu novel name william wali by noor rajput

ولیم_ولی (معرفت اور محبت ہر ایک کو نہیں ملتی)
قسط_نمبر_4 پارٹ_2
نور_راجپوت
مسٹر جوزف کن انکھیوں سے جوزف کو دیکھ رہے تھے اور اُن کے ساتھ والے صوفے پر ایک جانب نینی تو دوسری جانب جارج بیٹھا تھا۔ گرے پینٹ اور نیلی گول گلے والی ٹی شرٹ میں وہ ادب سے بیٹھا تھا۔
وہ بڑا بیٹا تھا اور اس کا کام اپنے باپ کو خوش رکھنا تھا۔
وہ ان کی محبت کے لیے انہیں خوش کرنے کے لیے ہر وہ کام کرتا جو اُسے ناپسند ہوتا۔ اس نے ناں کرنا نہیں سیکھا تھا۔ وہ ذہین تھا لیکن اس کی شخصیت ایسی نہیں تھی جو ماڈل یا ایکٹر کی ہوتی ہے اس لیے مسٹر جوزف نے اسے ڈائریکشن کی جانب لگایا اور جارج نے کھلے دل سے یہ قبول کرلیا۔ وہ ایک اچھا ڈائریکٹر بن سکتا تھا۔
مسٹر جوزف کن انکھیوں سے ولیم کو دیکھتے رہے۔ وہ سفید بیگی پینٹ پر کالی پولو شرٹ پہنے ہوا تھا۔ بال پیچھے کی جانب سیٹ تھے اور اسکی کتھئی آنکھیں کسی کو بھی اپنی جانب راغب کر سکتی تھیں۔ وہ بالوں اور آنکھوں کے رنگ کو چھوڑ کر اپنی شخصیت میں کسی حد تک مسٹر جوزف کی کاپی تھا۔ وہ وجیہہ تھا اُسکی ذات میں ایک بےنیازی تھی جو کسی کو بھی اپنی جانب کھینچ لیتی اور قد میں وہ ان کے برابر آگیا تھا۔
اسے دیکھ کر مسٹر جوزف کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ وہ مستقبل کا ایک چمکتا ستارہ تھا ایسا ستارہ جسے سالوں پوجا جاتا۔ بس اسے کسی ہیرے کی طرح تھوڑا تراشنے کی ضرورت تھی اور مسٹر جوزف چاہتے تھے یہ کام ابھی سے شروع ہو۔
انہوں نے ولیم سے نظریں ہٹا کر نینسی کو دیکھا وہ بےپناہ حیسن لڑکی تھی لیکن مسٹر جوزف اسے ایکٹنگ کی جانب نہیں لانا چاہتے تھے۔ پھر نساء کو دیکھا جو نینسی سے لگی بیٹھی تھی۔ وہ ابھی چھوٹی تھی۔
”ہائی اسکول کے بعد تم دونوں نے کیا سوچا ہے؟؟“ وہ براہ راست ولیم اور نینسی سے مخاطب ہوئے۔ اُنکا آخری سال تھا۔ لہجہ حد درجہ سنجیدہ رکھا گیا۔ ایک ہاتھ کو ٹانگ پر رکھے جبکہ دوسرے میں سلگتا مہنگا سگار لیے ان کی نظریں ولیم کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”ہم دونوں کافی اسکول پراجیکٹس میں کام کر رہے ہیں اور مجھے لگتا میری دلچسپی کاسٹیوم ڈیزائننگ کی طرف ہے۔۔“
نینسی پہلے بولی۔ وہ پراعتماد تھی۔ اپنے فیصلے لے سکتی تھی۔ اب تک وہ اور ولیم ہمیشہ ایک ہی کام کرتے رہے تھے لیکن انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہائی اسکول کے بعد جس کی جس فیلڈ میں دلچسپی ہوگی وہ وہی کام کرے گا۔
”اور ولیم تم؟؟“ مسٹر جوزف نے ولیم کو مخاطب کیا۔ سگار سے اٹھتے دھویں کے مرغولوں میں انہیں کئی سالوں بعد ولیم الجھا ہوا نظر آیا۔ وہ کافی سنجیدہ تھا۔ بھنویں سکڑی ہوئی تھیں اور وہ کسی غیر مرئی نقطے پر گھور رہا تھا۔
حقیقت تو یہ تھی وہ اپنے اندر کی اس جلن کو مٹانے کی کوشش کر رہا تھا جو صبح سے سینے میں جاری تھی۔ آج صبح وہ کسی کام سے تہہ خانے میں گیا تو اسے اپنا مطلوبہ سامان ڈھونڈتے ایک چھوٹا سا لکڑی کا باکس ملا جسے دیکھ کر وہ ساکت ہوگیا۔ دماغ میں درد کی گہری ٹیس اٹھی یہ باکس اس نے بچپن میں کہیں دیکھا تھا۔ ماضی کے منظر کسی فلم کی طرح تصور کے پردے پر لہرانے لگے۔
یہ باکس اُسکی ماں کا تھا۔
”ولی۔۔۔“ وہ پکار واضح ہوئی۔ ہنسنے مسکرانے کی آوازیں ابھریں۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ مٹی سے اٹا باکس اٹھایا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ وہاں نینسی کے لیے ایک پرانا کاسٹیوم لینے آیا تھا جسکی اسے اسکول کی کسی تقریب کے لیے ضرورت تھی پر وہ نہیں جانتا تھا سالوں بعد اس کا سامنا اپنے بچپن سے ہوجائے گا۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے باکس اٹھایا اور اسے کھولا۔ ٹک کی آواز سے ڈھکن اوپر اٹھ گیا اور پھر اندر رکھی اس تصویر کو دیکھ کر اس کی آنکھیں دُھندلا گئیں۔
وہ تصویر اس کی ماں تھی۔ سفید رنگ کے اسکارف میں وہ ولیم کو اپنے حصار میں لیے بیٹھی تھی۔ وہ دونوں مسکرا رہے تھے لیکن اسے اپنی ماں کی آنکھوں میں نمی واضح دکھائی دی۔ وہ انگلی کی پوروں سے ان کے چہرے کو چھونے لگا۔
”ولی اپنے پروردگار کو یاد رکھنا۔“
آوازیں پھر سے گڈمڈ ہونے لگیں۔ کئی الفاظ اس کی سماعت پر کسی ہتھوڑے کی طرح پڑنے لگے۔ آس پاس کا سامان غائب ہوا، تہہ خانہ اور جوزف پیلس بھی اب وہ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں تھا جہاں وہ بھاگ رہا تھا اور اس کی ماں اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ کھلکھلا رہے تھے۔ وہ دونوں خوش تھے۔
”ولیم۔۔“ سیڑھیوں پر نینسی کی آواز ابھری اور
وہ کسی خواب سے جاگ اٹھا۔ تیزی سے باکس بند کرکے واپس رکھ دیا اور بازو سے آنکھیں رگڑیں۔
کبھی کبھی کچھ یادیں یاد داشت سے اوجھل ہوجاتی ہیں لیکن ہماری روح سے چپکی رہتی ہیں کسی آسیب کی طرح جو کبھی بھی کسی بھی وقت ایک آئینے کی طرح ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔
اور ولیم کے ساتھ اس وقت یہی ہوا تھا۔ جو باتیں وہ بھول چکا تھا وہ پوری جزئیات سے تازہ ہوگئی تھیں۔
”ولیم کاسٹیوم مل گیا تمہیں؟؟“ نینسی پکارتے اس کے قریب آئی جبکہ ولیم نے نظریں چراتے نفی میں سر ہلایا۔ کچھ دیر بعد وہ کاسٹیوم ڈھونڈ کر اوپر آگئے پر ولیم ابھی تک ان احساسات کے زیر اثر تھا۔
”ولیم۔۔۔؟؟“ مسٹر جوزف کی پکار پر وہ حال میں واپس لوٹا ایک نظر اٹھا کر مسٹر جوزف کو دیکھا جو اپنی پوری توجہ اسی کی جانب مرکوز کیے بیٹھے تھے۔
لوگوں کو اس پر رشک آتا تھا کہ وہ جوزف پیٹرسن کا بیٹا تھا۔ وہ شخص جس کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ بےتاب رہتے تھے۔ وہ جس فریم آجاتا اس کا حسن بڑھ جاتا تھا۔ وہ شخص جس نے اپنے بچوں کو شہزادے شہزادیوں جیسی زندگی دی تھی۔ وہ شخص اپنا ہو کر بھی اپنا کیوں نہیں لگتا تھا؟ وہ کئی لمحے اپنے باپ کو دیکھتا رہا اور پھر نظریں جھکا لیں۔ وہ ہولے سے بڑبڑایا۔
”ابھی کچھ سوچا نہیں ہے۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔ مسٹر جوزف نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
” لیکن میں نے کچھ سوچ رکھا ہے۔“ سگار کو ایش ٹرے میں رکھتے وہ اسی انداز میں بولے۔ ولیم چونکا۔ سب مسٹر جوزف کی جانب متوجہ تھے۔ ولیم کے لیے انہوں نے کیا سوچ رکھا تھا؟؟
“میں چاہتا ہوں تم شوبز جوائن کرو۔۔“ عام سے انداز میں حکم چلایا گیا۔ نینی اور نینسی دونوں نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ ولیم کو شوبز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ کسی صورت اس فیلڈ میں نہیں جانا چاہتا تھا۔
”جارج نے میرے کہنے پر ڈائریکشن کو چنا ہے وہ ذہین ہے کرلے گا جبکہ تم وجیہہ ہو اور میں چاہتا ہوں تم اس کا فائدہ اٹھاؤ۔“ وہ اب تھوڑا آگے ہو بیٹھے۔ گلے کا اوپری بٹن کھلا ہوا تھا۔ وہ آج ہی دوسرے شہرے سے لوٹے تھے۔ تکان انکی آنکھوں میں واضح تھی پر وہ تازہ دم تھے۔ ان کی اس ذرا سی تعریف پر جارج کا چہرہ سرخ پڑا جبمہ ولیم نے جبڑے سختی سے بھینچ لیے۔
”تمہارا رنگ روپ، تمہارا قد کاٹھ، تمہاری آنکھیں تمہاری شخصیت تمہیں آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی ولیم اور میں چاہتا ہوں تم اسکی شروعات ابھی سے کرو۔۔“ ولیم کو خاموش دیکھ کر انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔ تبھی صوفی چائے کی ٹرالی باقی لوازمات کے ساتھ گھسیٹے لاؤنج تک پہنچی۔ اب وہ چائے رکھ رہی تھی۔ خاموشی چھائی رہی۔ سفید نازک سے کپ میں مسٹر جوزف کے قہوہ سے اٹھتی مہک ذہن کو جگانے لگی۔
”میں چاہتا ہوں تمہارا فوٹو شوٹ ہو۔ ایک بہت بڑے برینڈ کا کمرشل شوٹ چل رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ تم کرو۔۔“ وہ بتارہے تھے وہ کیا چاہتے تھے۔ اور جو وہ چاہتے تھے وہ کرنا پڑتا تھا۔ نینسی مسٹر جوزف کی ہر اگلی بات پر پریشانی سے ولیم کو دیکھ رہی تھی۔
”اور اگر میں انکار کردوں؟؟“
قہوہ کا کپ اٹھاتے مسٹر جوزف کا ہاتھ پل بھر کو ساکت ہوا لیکن اگلے ہی انہوں نے کپ اٹھا لیا۔ وہ ہولے سے مسکائے اور پھر کپ لو لبوں تک لے جاتے انہوں نے قہوہ کا پہلا گھونٹ لیا۔ سفید کپ میں چمکتا گہرا سبزی مائل قہوہ واضح تھا۔ عقب میں لگی دیوار پر وہ بڑی سی پینٹنگ سیدھا ولیم کو ہی گھور رہی تھی۔
”تو اس سے بہتر کچھ بتاؤ جو تم کرنا چاہتے ہو؟؟“ وہ محظوظ سے بولے۔ ولیم یونہی بیٹھا رہا جبڑے بھینچے۔ وہ ابھی تک نہیں سوچ پایا تھا اسے کیا کرنا تھا پر وہ یہ تو کسی صورت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”وہ ابھی میں نے سوچا نہیں ہے۔ ایک سال ہے میرے پاس سوچ لوں گا۔“ سب اسے دم سادھے سن رہے تھے۔ جارج نے اسے رشک سے دیکھا۔ وہ کتنے اعتماد سے مسٹر جوزف سے بات کرلیتا تھا۔
”تو تب تک وہ کرلو جو میں کہہ رہا ہوں۔۔“ مسٹر جوزف اسی سکون سے بولے۔
”ولی۔۔۔“ کسی نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”معاف کیجیے گا لیکن مجھے اس فیلڈ میں دلچسپی نہیں ہے۔۔“ پہلی بار مسٹر جوزف کی آنکھوں کی چمک ماند پڑی۔ لبوں کی وہ مسکان غائب ہوئی جو ابھی تک قائم تھی۔
جارج نے گھبرا کر ولیم کو دیکھا۔ نینی نے بےساختہ منہ پر ہاتھ رکھا اور نینسی پریشانی سے مسٹر جوزف کو دیکھنے لگیں۔
جوزف پیلس میں کسی نے پہلی بار مسٹر جوزف کو انکار کیا تھا۔ سب کا ساکت ہونا تو بنتا تھا۔ مسٹر جوزف نے کپ واپس رکھتے ایک گہرا سانس فضا میں خارج کیا اور پھر بھنویں سکیڑ کر ولیم کو دیکھا۔
”تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟؟“ لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی گئی۔
”جی بالکل۔ میں جانتا ہوں میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔“ اس نے مسٹر جوزف کو دیکھا۔ زخمی نگاہیں لیے۔ زخمی دل لیے۔ اپنے باپ پر غصہ آرہا تھا کیوں آرہا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔
“میں تمہارے لیے ایک صحیح فیصلہ لے سکتا ہوں ولیم۔۔“
”میں اپنے فیصلے خود لے سکتا ہوں ڈیڈ اور میں چاہتا ہوں مجھے مجبور نہ کیا جائے۔۔“ وہ انکی بات کاٹتا تیزی سے بولا اور پھر لاؤنج سے نکل کر خارجی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ دور جا رہا تھا۔پیچھے موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ لکڑی کا قد آور دروازہ کھلا اور بند ہوگیا۔
”میں دیکھتی ہوں۔۔“ نینسی کی آواز ابھری اور وہ ولیم کے پیچھے لپکی۔ پیچھے مسٹر جوزف جبڑے بھینچے بیٹھے رہ گئے۔ سبکی کا احساس ہورہا تھا۔ انکی اولاد نے انہیں انکار کردیا تھا۔ یہ ناممکن تھا۔ یہ تو غضبناک تھا۔
✿••✿••✿••✿
نینسی پلیس سے باہر نکلی تو ولیم وہاں نہیں تھا۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر پیلس کے پچھلے حصے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ جانتی تھی ولیم کہاں گیا تھا۔ جوزف پیلس اونچائی پر بنا تھا جبکہ آس پاس کا علاقہ ڈھلوانی تھا اور محل کے شمالی جانب ایک چھوٹا سا جنگل تھا جہاں اس کا اور ولیم کا پسندیدہ اسپوٹ (ایک مخصوص جگہ)تھا جو انہوں نے مل کر بنایا تھا اور اکثر اوقات وہ وہاں آتے جاتے تھے۔ وہ اب پیلس کے احاطے سے نکل آئی تھی۔
ڈھلوان اترتے وقت اس کے پونی میں بندھے سہنری بال تیز ہوا سے اڑ رہے تھے۔ مٹیالے رنگ کی کھلی پینٹ پر سفید شرٹ پہنے نینسی ہمیشہ کی طرح ہی پیاری لگ رہی تھی۔
تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ گئی۔ یہ درختوں کے درمیان بنایا گیا اسپوٹ تھا۔ درختوں کے نیچے رکھا لکڑی کا بینچ اور درختوں سے لٹکتے دو ہیموک (ہیموک ایک خاص قسم کی جھولتی ہوئی بیڈ یا جھولا ہوتا ہے جو عموماً دو درختوں یا کسی مضبوط چیز کے درمیان لٹکایا جاتا ہے۔ یہ آرام کرنے، سونے یا کتاب پڑھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہیموک کو کپڑے یا رسی سے بنایا جاتا ہے، اور یہ مختلف سائز اور ڈیزائن میں دستیاب ہوتا ہے) تھے۔ اس کے علاوہ دو کرسیاں اور ایک گول میز رکھا تھا۔ درختوں پر برقی قمقمے لٹکے تھے جسے انہوں نے بیٹری سے جوڑ رکھا تھا۔ وہ اکثر اوقات شام کو یہاں آیا کرتے تھے۔ اس جگہ سے کچھ فاصلے پر ندی تھی۔
انکے ساتھ کبھی کبھی جارج اور نساء بھی آتے۔ اکثر باربی کیو کیا جاتا۔ آگ جلاتی جاتی۔ میوزک لگایا جاتا اور مختلف کھیل کھیلے جاتے۔ اس جگہ سے انکی بہت ساری یادیں جڑی تھیں۔ وہ خوش ہوتے تو یہاں آتے۔ مایوس ہوتے تو یہاں آتے۔ یہ انکا کنفرٹ زون تھا۔ وہ یہاں ساری باتیں کر لیتے تھے۔
اس وقت بھی ولیم بنچ پر بیٹھا نظر آیا۔ نینسی چلتے ہوئے اس کے قریب گئی اور کچھ فاصلہ رکھ کر ساتھ بیٹھ گئی۔
ٹھنڈی ہوا سے پورا جنگل جھوم رہا تھا۔ ہوا سے ہلتی شاخیں عجیب پیام سنا رہی تھیں۔
”تم کیا چھپا رہے ہو مجھ سے؟؟“ ذرا سا رخ موڑ کر ولیم کو دیکھتے پوچھا۔ وہ کچھ نہ بولا۔ یونہی جبڑے بھنیچے بیٹھا رہا۔ نینسی اسے دیکھتی رہی۔ اس کی Jaw Line واضح تھی۔ صاف شفاف سا چہرہ بنا کسی داڑھی کے۔ وہ واحد لڑکا تھا جو نینسی کو کلین شیو اچھا لگتا تھا۔
”ویسے انکل ٹھیک کہہ رہے ہیں تم اچھے ماڈل بن سکتے ہو۔۔“
”ہاں جیسے تم ہیروئن۔۔“ جلا بھن کر جواب آیا۔ نینسی نے بےساختہ امڈ آنے والے مسکراہٹ کو چھپایا۔
”تم لاکھوں کڑوڑوں دل جیت سکتے ہو۔۔“ وہ پرشوق سی بولی۔
”ہاں جیسے تم آسکر۔۔۔“ اسی انداز میں اگلا جواب آیا۔
”نینسی جیسن کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔۔“ وہ مسکرائی۔ ولیم یونہی بیٹھا رہا۔
”خیر مجھے اچھا لگا تم نے اپنے حق کے لیے بات کی لیکن تم مجھ سے کچھ چھپا نہیں سکتے۔ یہ رولز کے خلاف ہے۔ تو بتاؤ پریشان کیوں ہو؟؟ تمہارا موڈ صبح سے خراب ہے۔۔“ ہے۔۔“ وہ اسے سب سے زیادہ جانتی تھی۔ ولیم نے اس کی بات سن کر آنکھیں موندھ لیں۔
”گہرا سانس لو ولیم۔“ وہ دونوں ایک دوسرے کو ایسے ہی پرسکون کرتے تھے۔ ولیم نے گہرا سانس اندر کھینچا تازی ہوا اور پھر بوجھل ہوا باہر نکال دی۔ تین چار بار ایسا کرنے سے اسے کافی حد تک پرسکون محسوس ہوا پھر اس نے تھوڑا سا اٹھتے ہوئے اپنی پینٹ کی سائیڈ جیب سے کچھ نکالا اور نینسی کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔ یہ صبح والی تصویر تھی۔ ولیم کی اپنی ماں کے ساتھ۔
نینسی نے وہ تصویر تھام لی۔ وہ اسے دیکھنے لگی۔
”تمہاری مام بہت پیاری تھیں ولیم۔۔“ روشن چہرے والی وہ عورت نینسی کو پہلی ہی نظر میں اچھی لگی۔
”تمہاری آنکھیں اور تمہاری رنگت بالکل تمہاری مام جیسی ہے۔“ ہاں وہ جارج، نساء اور نینسی یہاں تک کہ مسٹر جوزف کی طرح دودھیالی رنگت نہیں رکھتا تھا۔ اس کی رنگت میں ایک سنہرا پن تھا جو اسے آدھا مشرقی بناتا تھا۔
”تمہاری مام پاکستانی تھیں نا؟؟“ وہ اب بھی انہیں غور سے دیکھ رہی تھی۔ ولیم نے اثبات میں سر ہلادیا۔
”یعنی تم آدھے پاکستانی ہو؟؟“ اگلا جملہ ابھرا۔ نینسی کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ولیم کچھ نہ بولا۔
”اب سمجھ آیا کہ تم یہاں کے ہو کر بھی یہاں کہ کیوں نہیں لگتے ہو۔“ نینسی نے پہلی بار اس پر اتنے تبصرے کیے تھے۔
”ویسے تم اپنی مام جیسے ہو بس فیس کٹ کو چھوڑ کر۔ تمہاری
Jaw line
کافی شارپ ہے انکل کی طرح۔ باقی تم اپنی مام جیسے ہو۔۔“ وہ انکے چہرے کو کو انگلی کی پوروں سے چھونے لگی۔
”مام نے خود کشی کی تھی۔۔۔“ گھٹی گھٹی سی ولیم کی آواز پر نینسی کے ہاتھ ساکت ہوئے۔
”ایم سوری ولیم۔۔“ وہ دونوں ہتھیلیاں بینچ پر جمائے بیٹھا تھا۔ اسکی داہنی ٹانگ زور زور سے ہل رہی تھی۔ وہ صبح سے بےچین تھا۔ نینسی نے اسے دیکھا اور پھر اس کے داہنے ہاتھ پر اپنا بایاں ہاتھ رکھ دیا۔
”وہ کبھی انکا ذکر نہیں کرتے، کبھی بھی نہیں۔۔“
وہ تکلیف میں تھا۔
”انہیں جارج اور نساء کی مام کی برسی یاد ہے، انہیں تمہارے مام ڈیڈ کی برسی یاد ہے وہ ہر سال دعا کرواتے ہیں پر انہیں میری مام نہیں یاد وہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔۔“
نینسی کو اس پل اس پر ترس آیا۔
”تم ہو نا۔ تم انکی بہترین یاد ہو۔ وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم سب سے زیادہ۔ وہ تم پر جان وارتے ہیں ولیم۔۔“
نینسی اس کے زخموں پر مرہم رکھنے لگی۔ ولیم نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ واپسی پر نینی اس کا موڈ ٹھیک کر چکی تھی۔
مسٹر جوزف ولیم پر جان وارتے تھے یہ سچ تھا لیکن وہ کتنی آسانی سے جان لے لیتے تھے اس سے ابھی وہ دونوں ناواقف تھے۔
✿••✿••✿••✿
رات کے اس پہر جوزف پیلس میں خاموشی کا بسیرا تھا اور اس خاموشی میں پلیٹ میں چلنے والے چمچ کی آوازیں وقفے وقفے سے گونج رہی تھیں۔ رات کے کھانے پر آج مسٹر جوزف، نینسی ، نساء اور نینی موجود تھیں۔ جارج اپنے ہاسٹل تھا جبکہ ولیم غائب۔ وہ آج کل یونہی غائب رہنے لگا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا مسٹر جوزف سے اس کا سامنا نہ ہو۔ مسٹر جوزف اور ولیم نے درمیان ایک عجیب سی سرد دیوار قائم تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو کم کم بلاتے تھے اور ولیم ان سے کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ اس نے رگبی کھیلنا شروع کردیا۔ وہ جانتا تھا مسٹر ولیم کو نہیں پسند لیکن اسے پسند تھا اور وہ ان کے لیے اپنی پسند نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
”ولیم کہاں ہے؟؟“ انہوں نے سربراہی کرسی پر بیٹھتے پوچھا۔ وہ اس وقت سفید ٹراؤذر اور سفید ہی پولو شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ اپنی تابناک شخصیت کے ساتھ وہ سارے پیلس تمام چمکتے برقی قمقموں کو مات دے رہے تھے۔
”ولیم کا کل میچ ہے وہ پریکٹس کے لیے گیا تھا ابھی تک نہیں لوٹا۔۔“ نینسی نے خوشگوار لہجے میں ماحول کو قدرے خوشگوار بنانے کی کوشش کی لیکن مسٹر جوزف کی تیوری چڑھ گئی۔ وہ کچھ نہ بولے۔
تبھی مرکزی دروازہ کھلا اور ولیم اندر داخل ہوا۔ سیاہ گھٹنوں تک آتے ٹراؤذر پر سرخ رنگ کی شرٹ پہنے، سر پر اوڑھی سیاہ کیپ اور جوگرز میں مقید پاؤں دھرتا وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ کندھے پر سیاہ بیگ تھا اور ہاتھ میں وہ بیضوی گیند جس کے ساتھ رگبی کھیلا جاتا تھا۔
”ہیلو گائز“ وہ لاؤنج میں داخل ہوتے بولا۔ اب وہ مسٹر جوزف سے جھجھکتا بھی نہیں تھا۔ مسٹر جوزف کے سواء سب نے اسے دیکھا جو اب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جارہا تھا۔
”ولیم ادھر آؤ۔۔“ نینی کی آواز پر وہ رک گیا اور پھر سیڑھیاں پھلانگتا واپس آیا۔ کیپ سر سے اتار دی۔ نینی کے قریب آکر ان کے گال پر پیار کیا۔
”کیسی ہیں آپ دلربا؟؟“ وہ شوخ لہجے میں بولا۔ وہ آج کل انہیں ایسے ہی بلاتا تھا۔ کبھی حسینہ، کبھی دلربا، کبھی جان من تو کبھی گرل فرینڈ!
”بدمعاش اس عمر میں مجھے دلربا کہہ رہے ہو“ نینی نے اسکا کان پکڑ لیا۔
”ارے نینی میں تو وہ کہتا ہوں جو سچ ہے آپ بلاوجہ ہی بلش کرنے لگتی ہیں۔ اپنا چہرہ دیکھیں ذرا لال ٹماٹر ہوگیا ہے۔۔“ وہ اپنا کان چھڑاتے بولا یوں جیسے مسٹر جوزف وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ جبکہ نساء اور نینسی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھیں اور نینی تو شرم سے بےحال ہونے لگیں جبکہ مسٹر جوزف کی زیرک نگاہوں نے ایک ہی نظر میں اسے سر سے پاؤں تک اسکین کرلیا۔
اس کی حالت بری تھی۔ کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے اور گھٹنا چھلا ہوا تھا۔
”چلو ہاتھ دھو کر آؤ پہلے کھانا کھاؤ بعد میں باتیں کرنا۔۔“ نینی نے سنجیدہ ہوتے کہا۔ وہ مسٹر جوزف سے واقف تھیں اور جانتی تھیں ولیم کا حلیہ اس وقت انہیں سلگا رہا تھا۔
”میں پہلے شاور لوں گا پھر کھانا کھاؤں گا آپ لوگ کھائیں۔“ وہ کن انکھیوں سے مسٹر جوزف کو دیکھتا ڈائننگ ہال سے باہر نکل گیا۔ ارادہ انہیں سلگانا ہی تھا۔ جب وہ سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا تب اس نے مسٹر جوزف کی آواز سنی۔
”آسمان کی بلندیاں اس کی منتظر تھیں پر اس نے زمین کی خاک کو چنا۔“ لہجہ کڑوہ تھا۔ انکی بھوک مٹ چکی تھی۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے جبکہ ولیم زیرلب مسکرانے کے بعد اب سیٹی بجاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جوزف پیلس میں ناشتہ اور رات کا کھانا اکٹھا کھایا جاتا تھا اور ولیم آہستہ آہستہ اس روایت کو بھی توڑ رہا تھا۔
جبکہ مسٹر جوزف اب پھولی کنپٹیوں کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جوزف پیٹرسن کا بیٹا ہو کر اس نے کیا چنا تھا؟؟ ایک کھیل۔ عام سا کھیل۔ یہ تو بالکل ایسے تھا کہ پوری دنیا چھوڑ کر انسان کسی جھونپڑی میں رہنے کو ترجیح دے۔
✿••✿••✿••✿
جہاں ولیم کی شخصیت میں باغی پن آگیا تھا وہیں وہ آوازیں جو سالوں پہلے ولیم کا پیچھا چھوڑ چکی تھیں وہ پھر سے لوٹ آئی تھی لیکن ولیم اب بچہ نہیں رہا تھا وہ اب ان آوازوں کو خود تک رکھنے لگا۔ صرف آوازیں آتی تھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
وقت گزرنے لگا۔ ولیم اور مسٹر جوزف کے درمیان قائم سرد دیوار مزید گہری ہوگئی۔ مسٹر جوزف، ولیم کو لے کو شوبز کے حوالے سے کافی خواب دیکھ چکے تھے جنہیں ولیم لمحہ بہ لمحہ توڑ رہا تھا۔ ہائی اسکول کا آخری سال بھی گزر گیا۔ہائی اسکول مکمل ہونے سے پہلے ہی نینسی اسکالر شپ کے لندن اپلائے کر چکی تھی۔ وہ کاسٹیوم ڈیزائننگ کرنا چاہتی تھی۔ جارج کے کالج میں ہی اس نے اپلائے کیا تھا۔ اسے انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ وہ ولیم کو ساتھ لے کر گئی۔
انٹرویو پاس ہوگیا۔ نینسی کو داخلہ مل چکا تھا جبکہ ولیم نے یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں، انٹرنیشل بزنس میں داخلہ لے لیا۔ وہ ابھی تک نہیں جانتا تھا اسے کیا کرنا تھا اس نے شوبز سے دور رہنے کے لیے یہ فیلڈ چن لی تھی لیکن اس نے رگبی کو جاری رکھا۔ رگبی وقت کے ساتھ ساتھ اس کا جنون بن گیا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح کھیلتا تھا۔
آج نینسی کا جوزف پیلس میں آخری دن تھا۔ کل اسے جارج کے ساتھ چلے جانا تھا اس لیے آج کا دن وہ سب خاص بنانا چاہتے تھے۔
نینسی صبح صبح ہی اٹھ گئی۔ سب سے پہلا کام ولیم کو اٹھانے کا تھا تاکہ سب مل کر ناشتہ کرسکیں۔ مسٹر جوزف شہر سے باہر گئے تھے وہ کل ہی لوٹنے والے تھے۔ نینسی نے جیسے ہی ولیم کے کمرے کا دروزہ کھولا وہ ساکت رہ گئی۔ سامنے ہی بستر پر ولیم پڑا تھا وہ پسینے سے شرابور تھا اور نیند میں سر زور زور سے دائیں بائیں مار رہا تھا یقیناً وہ کسی برے خواب کے زیر اثر تھا۔
”ولیم۔۔“ نینسی تڑپ کر اسکی جانب بڑھی۔
”ولیم آنکھیں کھولو۔۔“ وہ اب اسے جھنجھوڑنے لگی اسکی آواز ولیم کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ برے خواب سے جاگ اٹھا۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ سنہرے بالوں والی نینسی اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔
”تم ٹھیک ہو؟؟“ وہ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر پوچھنے لگی۔ ولیم جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اس کا پورا وجود پسینے سے شرابور تھا۔ سینہ دھونکنی کی مانند چل رہا تھا اور آنکھوں میں وحشت واضح تھی۔
”تم ٹھیک ہو نا۔۔؟؟“ وہ بیڈ کے کنارے ٹک گئی۔ ولیم نے بےساختہ دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور خود کو نارمل کرنے لگا۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔“ کچھ دیر بعد وہ بولا جبکہ نینسی تشویش سے اسے دیکھے گئی۔ اسکے گھنے کھتئی بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے اور کتھئی آنکھوں میں درد واضح تھا۔ وہ جانے کب سے ان برے خوابوں کے زیراثر تھا اس نے نینسی کو نہیں بتایا تھا۔ تو اب وہ باتیں چھپانے لگا تھا؟؟
ان میں کوئی راز نہیں تھا۔ تو کیا اب وہ راز رکھنے لگا تھا؟؟
”میں ناشتے کے لیے بلانے آئی تھی۔۔“ نینسی کو اس موضوع پر بات کرنا اس وقت مناسب نہیں لگا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔“ وہ مخملی کمبل اتارتا اٹھ کھڑا ہوا۔ سفید شب خوابی کے شکنوں زدہ لباس میں وہ خود الجھا ہوا تھا۔ سفید رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا۔ اس کے بستر کا رنگ سفید تھا۔ کمرے میں لگے پردے سفید تھے اور اس کا شب خوابی کا لباس سفید تھا۔
”ٹھیک ہے جلدی آؤ ناشتہ ریڈی ہے۔۔“ وہ ٹخنوں سے ذرا اوپر تک آتی فراک پہنے ہوئے تھی۔ بال کھلے تھے اور چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ مسکرا کر کہتی باہر نکل گئی جبکہ ولیم کتنی ہی دیر شاور کے نیچے کھڑا رہا۔
اسے اپنی ماں کے خواب نظر آتے تھے۔ وہ منظر جب اس کی ماں نے خود کشی کی تھی۔ وہ باہر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور جب واپس آیا تو اس نے اپنی ماں کو چھت کے پھنکے سے لٹکے پایا وہ میز پر کھڑی تھی۔ گلے میں رسی ڈالے۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کیا کر رہی تھی پر اس کے دل نے کہا تھا کچھ غلط ہونے جارہا تھا۔
”مام۔۔۔“ وہ انہیں پکارتا انکی جانب بڑھا پر تب تک میز ان کے پیروں کے نیچے سے نکل چکا تھا۔ انکا جسم تڑپ رہا تھا۔ جان نکل رہی تھی۔ آنکھیں ابل آئی تھیں۔ پانچ سالہ ولیم کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی رہ گئیں۔
یہ وہ منظر جسے وہ بھول چکا تھا کیونکہ اس حادثے نے اسے ذہنی طور پر کافی نقصان پہنچایا تھا پر یہ منظر اب اسے جزئیات سے یاد تھا جب سے اسے تہہ خانے سے اپنی ماں کی تصویر ملی تھی تب سے وہ یہ منظر ہر روز خواب میں دیکھتا تھا۔ اسے سونے سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ کئی کئی گھنٹے پاگلوں کی طرح رگبی کھیلتا تاکہ تھک ہار کر سوئے تو اسے کوئی خواب نظر نہ آئے پر وہ برے سپنے کبھی نہیں گئے وہ اس کی زندگی کا حصہ بن گئے۔
✿••✿••✿••✿
وہ دونوں رات کے اس پہر اپنی پسندیدہ جگہ پر تھے جہاں انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ جلا رکھی تھی۔ جب سے نینسی، جوزف پیلس آئی تھی وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہے تھے اور اب اچانک وہ جارہی تھی۔ دونوں اُداس تھے۔ سب اُداس تھے یہاں تک کہ نینی بھی بہت اُداس تھیں۔ پیلس کے نفوس آہستہ آہستہ کم ہورہے تھے۔ پہلے جارج گیا اور اب نینسی۔ جوزف پیلس کی رونق پھر سے ماند پڑنے لگی تھی۔ شاید اسی کو وقت کہتے ہیں کبھی ہمارا تو کبھی کسی کا بھی نہیں۔
آج کا دن نینسی اور ولیم نے گھوم پھر کر گزارا تھا۔ پورے ایڈنبرا میں ہر پسندیدہ جگہ، ہر پسندیدہ رستوران وہ گئے تھے اور اب آخر میں یہاں تھے۔
کتنی ہی دیر وہ جلتی آگ کے قریب بینچ پر بیٹھے رہے۔
”تم مجھے یاد کرو گے؟؟“ نینسی نے بالآخر خاموشی کو توڑا۔
”ہرگز نہیں۔۔“ وہ اسی سنجیدگی سے بولا تو نینسی مسکرا دی۔ وہ فراک پہنے بالکل کسی گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔ ولیم کو وہ عزیز تھی۔ اسکے خواب بھی عزیز تھے پر اس پل وہ چاہ رہا تھا کہ نینسی نہ جائے رک جائے۔
”ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کے خواب پورے کرنے میں مدد کریں گے۔۔“ نینسی نے یاد دہانی کی۔
”تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے یاد ہے۔“ وہ جلتی لکڑیوں کو دیکھتے بولا۔ اس کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔
”جیسے میں نے تمہارے ہر میچ میں چلا چلا کر تمہیں سپورٹ کیا۔“ اس کے پر میچ پر وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ولیم ولیم چلاتی تھی۔
”اور تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔۔“ وہ برا سا منہ بناتے بولا۔ کیونکہ جیسا ان کا رشتہ تھا سب کو یہی لگتا تھا وہ دونوں ساتھ تھے۔
نینسی کو دیکھ کر ولیم کے جانب کوئی لڑکی بڑھتی نہیں تھی اور نینسی کی جانب کوئی دیکھ لے ولیم اس کی آنکھیں نکالنے کے پہ آجاتا تھا۔
”میری وجہ سے تمہارا معیار برقرار رہا ہے۔۔“ وہ بال جھٹکتے بولی۔ چہرے پر دلکش مسکان تھی۔
”تم وعدہ کرو وہاں جا کر مجھے بھول نہیں جاؤ گی۔۔“ وہ اس کی جانب پلٹا۔ ایک نینسی ہی اُسے سمجھتی تھی۔ اس کا ساتھ دیتی تھی وہ اب دور جارہی تھی اور ولیم کے دل کو کچھ ہو رہا تھا۔
“میں تمہیں کیوں بھولوں گی؟؟“ نینسی نے الٹا سوال کیا۔ ولیم ایک مضبوظ سہارا تھا۔ بہترین محافظ۔ اس سے دور جانے پر اس کی اپنی دھڑکن رک جاتی تھی۔
”ہم روزانہ ویڈو کال کریں گے۔ تم مجھ سے کچھ نہیں چھپاؤ گی۔“ وہ انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرنے والے انداز میں بولا۔ نینسی نے مسکراہٹ کو ابھرنے دیا۔
”ایم سیریس نینسی۔“ وہ خفا خفا سا بولا۔ کتھئی آنکھیں اس پہر آگ کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔
”تم بھی وعدہ کرو کہ کچھ نہیں چھپاؤ گے۔ جیسے تم نے ابھی اپنے خوابوں کے بارے میں مجھے نہیں بتایا دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرو گے۔“ سونے جیسے چمکتے بالوں میں اس کے دمکتے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”کبھی نہیں۔۔۔“ وہ مسکرایا اور پھر جیکٹ کی اندرونی جیب سے کچھ نکالا۔ وہ ایک مخملی سی ڈبیا تھی۔
”تمہارے لیے گفٹ۔۔“ اس نے ڈبیا نینسی کی جانب بڑھائی جسے نینسی نے خوش ہوتے تھام لیا۔ جیسے ہی اس نے ڈبی کو کھولا اندر ایک نازک سی چمکتی بریسلٹ تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی لیکن جیسے ہی نینسی نے اسے ہاتھ کی نازک پوروں پر اٹھایا وہ حیران رہ گئی۔ بریسلٹ ان دونوں کی نگاہوں کے درمیان تھے اور بریسلٹ سے لٹکتا وہ چھوٹا سا W واضح تھا۔ نینسی نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
”تاکہ لڑکے تم سے دور رہیں۔۔“ وہ کان کھجاتے بولا۔ نینسی نے بریسلٹ ڈبی میں واپس رکھا اور اسے بند کردیا۔
”پہلے ہی وہاں میرے سر پر جارج نامی بڑے بھائی کی تلوار لٹکتی رہے گی اور تم مجھے اپنے نام کا بریسلٹ دے رہے ہو۔ بھئی مجھے ساری عمر سنگل نہیں رہنا۔۔“ وہ ناک بھوں چڑا کر بولی۔
”اور وعدہ کرو کہ تمہیں کوئی لڑکا پسند آیا تو سب سے پہلے مجھے بتاؤ گی۔۔“
”ولیم مجھے سب رولز یاد ہیں جو ہم نے بچپن میں بنائے تھے۔۔“ نینسی نے اسے یاد دہانی کرائی۔ ولیم نے اثبات میں سر ہلایا۔
”میں بھی تمہارے لیے کچھ لائی ہوں۔“ اب وہ اپنے چھوٹے سے بیگ سے کچھ نکال رہی تھی۔ پھر اس نے اسپیکر جیسی چھوٹی سی مشین نکالی اور ولیم کی جانب بڑھائی۔
”یہ کیا ہے؟؟“ وہ حیران ہوا اور مشین کو تھام کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ مشین کے ساتھ ایک ہینڈ فری جڑی ہوئی تھی۔
”تمہیں آوازیں پریشان کرتی ہیں نا لیکن کیا ہو اگر اچھی آوازیں تمہیں سکون پہنچانے لگیں؟؟“ وہ پراسرار انداز میں بولی تو ولیم چونک گیا۔
”ادھر لاؤ میں بتاتی ہوں۔۔“ نینسی نے اس کے ہاتھ سے وہ مشین لے کر جلتی لکڑی کے دوسرے سرے پر لگا دیا جہاں تک ابھی آگ نہیں پہنچی تھی پھر اس نے ہینڈ فری ولیم کے کانوں میں اڑیس دی۔
”تم تیار ہو؟؟“ وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی تو ولیم نے ناسمجھی سے کندھے اچکا دیے اور اگلے ہی پل نینسی نے مشین پر لگا ایک چھوٹا سا بٹن دیا۔
چڑ چڑ کی ایک عجیب سی آواز ابھری۔ وہ پوری سماعت لگا کر سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
”یہ جلتی ہوئی لکڑی کی آواز ہے ولیم۔ سننے کی کوشش کرو وہ کیا کہہ رہی ہے۔“ ولیم کی آنکھیں بند تھیں جبکہ نینسی ہولے ہولے سرگوشیاں کرنے لگی۔ وہ دونوں اپنی دنیا میں کس قدر مگن تھے۔
”تم کائنات کی ہر آواز کو سن سکتے ہو۔ تمہارے پاس وہ سماعت ہے ولیم۔ یہ تمہیں غلط رخ دکھانے کی کوشش کرتی ہے تمہیں صحیح رخ چننا ہے تمہیں اسے کنٹرول کرنا ہے۔۔“ وہ اب اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ ولیم نے آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر اسے دیکھا۔
”میں نے تمہاری بیماری پر بہت تحقیق کی اور پھر میں نے جانا کہ اسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تم اسے قدرتی طور پر Heal کر سکتے ہو۔ تمہیں اپنے دماغ کو پرسکون کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں پر دھیان لگاؤ جو قدرتی ہوں۔۔“ نینسی نے ہولے سے ولیم کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔ لکڑیاں اب جل کر چٹکھنے لگی تھیں۔
”تھینک یو سو مچ نینسی! مجھے سمجھنے کے لیے۔“ وہ دل کی گہرائیوں سے بولا تو نینسی مسکرا دی۔ وہ کئی ثانیے یونہی بیٹھے رہے اور پھر تھوڑی دیر بعد ان کی لڑائی شروع ہوچکی تھی کیونکہ ولیم چاہتا تھا کہ نینسی کسی لڑکے سے دوستی کرنے سے پہلے ولیم اور جارج سے اس لڑکے کو approve کروائے۔
”کسی لڑکے کو پتا چلا کہ میرے دو کزن ہیں جو بھائیوں سے کم نہیں ہیں تو کوئی مجھ سے دوستی نہیں کرے گا۔“ وہ دبی دبی سی آواز میں چلائی۔
تمہیں لڑکوں سے دوستی کی ضرورت ہی کیا ہے؟؟“
”میں ساری زندگی اکیلے نہیں رہ سکتی مجھے ایک لائف پارٹنر چاہیے۔“
”تم وہاں پڑھنے جارہی ہو لائف پارٹنر ڈھونڈنے نہیں۔“ ولیم کی آواز تیز تھی۔ رات کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ ان کی لڑائی بڑھتی جارہی تھی۔لڑکیاں چٹکھ رہی تھیں۔ وہ دونوں اپنی دنیا میں بہت خوش تھے آنے والے وقت سے ناواقف۔
اچھا ہی ہے نا کہ انسان آنے والے وقت سے ناواقف ہوتا ہے ورنہ وہ کبھی سکون کی سانس نہ لے پائے۔
✿••✿••✿••✿
نینسی، جارج کے ساتھ چلی گئی۔ جوزف پیلس میں ایک بار پھر سے خاموشی چھاگئی۔ ولیم صبح نکلتا تو رات گئے گھر لوٹتا۔
مسٹر جوزف کو اپنے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔
ایسے میں نساء نے نینی نے ساتھ مل کر پیلس کی کافی زمہ داریاں سنبھال لیں۔ وہ گھر کی چھوٹی بیٹی تھی۔ اسے یہ کرنا ہی تھا۔
نینسی جانے کے بعد انہیں بھولی نہیں تھی۔ وہ روزانہ فون کرتی سب سے ڈھیروں باتیں کرتی۔ پہلے پہل اس کے لیے وہاں ایڈجسٹ ہونا مشکل تھا پھر آہستہ آہستہ اسے عادت ہوگئی۔
ولیم اور اس کی دوستی ابھی بھی ویسی ہی تھی۔ پورے دن کی ہر گھنٹے کی ہر پل کی خبر ایک دوسرے کو دی جاتی۔ وہ جب واپس آتی تو وہ ساری یادیں دہراتے ویسے ہی گھومتے پھرتے۔
وہ نئے دوست بنا رہی تھی اور ولیم کو کوئی اعتراض نہیں تھا اسے خود نیل مل گیا تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نیل اس سے چپک گیا تھا۔ وہ اسے ڈیپارٹمنٹ میں ہی ملا۔
ولیم کا پاگلوں کی طرح رگبی کھیلنا بہت پسند تھا۔ شروعات نیل کی طرف سے ہوئی اور آہستہ آہستہ وہ دوست بن گئے زندگی نے کروٹ تب لی جب نینسی کی زندگی میں نیا موڑ آیا۔
”کہاں گم رہتی ہو تم؟ جانتی ہو پچھلے تین دن سے تم نے مجھے فون نہیں کیا۔ مجھے تمہیں کچھ دکھانا تھا۔۔“ ولیم خفا تھا۔نینسی نے تین دن بعد اسے فون کیا تھا۔
”تم ٹھیک ہو نا؟؟“ اسکی متورم آنکھیں دیکھ کر ولیم کو پریشانی ہوئی۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔ لیکن وہ ٹھیک نہیں تھی ولیم جانتا تھا وہ ٹھیک لگ ہی نہیں رہی تھی۔
”جلدی سے بتاؤ کیا ہوا ہے؟“ وہ سیدھا ہو بیٹھا تاکہ نینسی تفصیل سے بتا سکے۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظر آتا نینسی کا وجود گہری کشمکش کا شکار تھا۔ اس نے نینسی کو کبھی اتنا الجھا ہوا نہیں دیکھا تھا وہ پچھلے کئی دنوں سے کافی خاموش خاموش تھی۔ ولیم کے ہر بار پوچھنے پر وہ امتحان کا کہہ کر ٹال دیتی لیکن پچھلے تین دن غائب رہنے کے بعد وہ اب جیسے ہمت ہار رہی تھی۔
”ولیم۔۔۔“ اس نے ہولے سے پکارہ۔
”میں سن رہا ہوں نینسی بولو کیا ہوا ہے؟ کسی نے کچھ کہا؟ جارج نے کچھ کہا؟“ وہ ںےچین ہوا۔ گردن کی رگیں تن سی گئیں۔
اس نے زندگی میں پہلی بار نینسی کی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی اور یہ چھوٹی بات نہیں تھی۔ وہ رونے دھونے والی لڑکی نہیں تھی۔ ولیم کے اس طرح پوچھنے پر وہ گردن ناں میں ہلاتی رہی۔ آنسوؤں کو پینے کی ناکام سی کوشش ولیم کی آنکھوں سے مخفی نہیں رہی۔
”خدا کا واسطہ ہے نینسی کچھ بولو۔۔“ اسکی خاموشی بھیانک تھی۔
”مجھے لگتا ہے مجھے محبت ہوگئی ہے۔۔“ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ہاتھوں کو مسلتے ہوئے۔ بال آدھے ہونی میں تھے اور آدھے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس نے کبھی نینسی کو اتنے بگڑے حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے واضح تھے۔
ولیم کئی لمحے بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اس کا ابھرنے والا قہقہہ بےساختہ تھا۔
”ایڈیٹ نینسی! اس میں رونے والی کیا بات ہے؟؟“ وہ اب ہنسی چھپانے کی کوشش کرنے لگا جبکہ نینسی یونہی بیٹھی رہی۔ وہ اب ولیم کو دیکھ رہی تھی جو ذرا بھی غصہ یا ناراض نہیں تھا۔
”دیکھو تمہیں محبت کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور میں خوش ہوں تم نے سب سے پہلے مجھے بتایا۔۔“ وہ اسے نارمل کرنا چاہتا تھا پر نینسی کی پریشانی کم نہ ہوئی۔
”نام کیا ہے اس کا؟؟ کیا کرتا ہے؟ جلدی سے مجھے اس کی تصویر بھیجو۔۔“ وہ اب پرجوش تھا یا بننے کی کوشش کر رہا تھا نینسی سمجھ نہیں پائی۔
”احمد۔۔۔“ اگلے ہی پل نینسی نے دھماکہ کیا۔ یہ نام وہ پہلے بھی سن چکا تھا۔ یہ نینسی کا نیا دوست تھا۔ وہ اکثر اس کی باتیں کرتی تھی۔ وہ کافی سمجھدار تھا اور نینسی اس سے متاثر تھی۔
ولیم کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ وہ پل کے ہزارویں حصے میں نینسی کی پریشانی کی وجہ بھانپ گیا۔مسٹر جوزف کو مسلمانوں سے نفرت تھی۔ وہ کسی صورت نہ مانتے۔ ولیم نے گہرا سانس لیا اور دونوں بازو پیچھے موڑ کر گردن ٹکا لی۔ لیپ ٹاپ سامنے میز پر رکھا تھا۔
”تمہاری لو اسٹوری کافی مشکل ہونے والی ہے نینسی۔۔“ وہ اسے چڑانے والے انداز میں بولا جبکہ نینسی کچھ نہ بولی۔ پھر وہ سیدھا ہو بیٹھا شاید کوئی اور بات بھی تھی جو وہ کرنا چاہتی تھی پر ہمت نہیں جٹا پارہی تھی۔
”اچھا بتاؤ جارج سے ملوایا تم نے اسے؟ جارج جو پتا ہے؟ اس نے کچھ کہا تو نہیں۔۔“ وہ اب سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔
”نہیں۔ جارج کو نہیں بتایا ابھی میں جانتی ہوں وہ نہیں مانے گا۔۔“ وہ پلکیں جھپکتے بولی۔ کہیں آنسوں نہ بہہ نکلیں۔
”اچھا میری بات سنو۔۔“ وہ اس کی نینسی تھی۔ اسے سب سے پہلے نینسی کا ساتھ دینا تھا۔
”تمہیں اپنی پسند کا پورا حق ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں اور جب ولیم تمہارے ساتھ کھڑا ہے تو یاد رکھو دنیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔“ وہ پوری سنجیدگی سے بولا۔ نینسی نے نم نگاہوں سے اسے دیکھا وہ یہ بات جانتی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ اگر ولیم خلاف ہوگیا تو پوری دنیا مل کر بھی اسے نہیں جیتا نہیں سکتی تھی۔ پریشانی والی بات یہی تھی کہ پوری سچائی جان کر ولیم اس کا ساتھ کبھی نہ دیتا۔
”تو اب میری اس سے بات کرواؤ یا میں آ جاتا ہوں خود مل لوں گا۔۔“ وہ اسے کمپوز کرنے کی پوری کوشش کرنے لگا۔ وہ نینسی کو اداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔ لیکن وہ جانے کہاں کھوئی تھی۔
”نینسی۔۔؟؟“ اسے بت بنا بیٹھے دیکھ کر ولیم نے پھر سے پکارہ۔
”اس نے مجھے بلاک کر دیا ہے وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔“ ولیم کی پیشانی پر شکنیں ابھریں۔ کوئی نینسی جیسن کو جیسے بلاک کر سکتا ٹھا؟؟ کوئی اسے کیسے ٹھکرا سکتا تھا؟؟
”اور ایسا کیوں کیا اس نے؟؟“ بھنویں سکڑ گئیں۔
”وہ کہتا ہے ہمارا کوئی جوڑ نہیں۔ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔۔“ اکیس سالہ نینسی رو دینے کو تھی جبکہ ولیم کو حقیقتاً پریشانی ہوئی۔ وہ باقی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ اسے کبھی ٹین ایج کرش نہیں ہوئے تھے۔ یہ پہلی بار تھا جب سے کوئی پسند آیا تھا۔
”مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا نینسی صاف صاف بتاؤ۔۔“ اسے کوفت ہوئی۔ دو ٹوک بات کرنے والی نینسی پہلیوں میں بات کیوں کر رہی تھی؟
”احمد میرے پروفیسر ہیں اور وہ مجھ سے کافی بڑے ہیں۔۔“
نینسی کے چہرے پر سارا خون نچڑ آیا۔ جبکہ ولیم ساکت رہ گیا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھے گیا۔ اسے واقعی یقین نہ ہوا۔
”نینسی۔۔۔“ اس نے بےیقیںی سے نینسی کو پکارہ۔
”ایم سوری ولیم میں نے بہت کوشش کی لیکن۔۔۔“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ چہرہ دونوں ہاتھوں میں گرائے وہ سسک رہی تھی جبکہ ولیم حیران پریشان سا بیٹھا تھا۔ اس نے ایسا تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
”کیا تم نے کبھی جادوگر دیکھا ہے؟؟ وہ شخص جادوگر ہے ولیم۔۔“ کچھ دیر بعد وہ چہرہ ہاتھوں سے اٹھاتے بولی۔ آنسوں ہتھیلی سے رگڑ ڈالے۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
”میں اس کے سحر سے نہیں بچ پائی حالانکہ میں نے بہت کوشش کی۔۔“ وہ سسکتے بولی۔
”وہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔ اس کے نزدیک میں چھوٹی بچی ہوں اور وہ میری محبت کو میرا پاگل پن کہتا ہے۔۔“
وہ اسے اپنے دل کی ہر بات سے آگاہ کر رہی تھی جسے وہ مہینوں سے چھپائے بیٹھی تھی۔
”وہ اچھا انسان ہے ولیم اور اچھے انسانوں سے محبت ہو ہی جاتی ہے۔“
ولیم کے تو جیسے الفاظ ہی گم ہوگئے تھے۔ وہ پتا نہیں کب اتنی بڑی ہوگئی تھی جو ایسی باتیں کرنے لگی تھی۔
”اس نے میری محبت کو ٹھکرا دیا ہے ولیم اس نے مجھے بلاک کر دیا وہ کہتا ہے وہ اس پاگل پن میں میرا ساتھ نہیں دے سکتا۔۔“
پہلی بار دل ٹوٹا تھا اور دل کا پہلا درد ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
”نینسی سنبھالو خود کو وہ ٹھیک کہہ رہا ہے یہ صرف اٹریکشن ہوگی تم دیکھنا بہت جلد ختم ہو جائے گی۔۔“
”پچھلے ایک سال سے یہی تو کوشش کر رہی ہوں ولیم لیکن دیکھو یہ اٹریکشن ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔۔“ لہجے میں درد تھا۔ استہزاہ تھا۔ ولیم لب بھینچ کر رہ گیا۔
”وہ بالکل انکل جیسا ہے۔ وجیہہ، پروقار اور سمجدار۔۔“
”پھر تمہیں اس سے محبت کیسے ہوگئی نینسی؟؟“ ولیم نے طنز کیا۔ مسٹر جوزف جیسے شخص سے محبت کرنا آسان نہیں تھا۔
”مرد وجیہہ، سمجدار اور پروقار ہونے ساتھ ساتھ مہربان بھی ہو تو کس عورت کو اس سے محبت نہیں ہوگی۔۔؟؟“
یہ وہ نینسی تو نہیں تھی جسے ولیم جانتا تھا۔ وہ پردیس جا کر بالکل بدل سی گئی تھی۔
”وہ مہربان ہے ولیم اور مجھے اُس کی اِس مہربانی سے محبت ہے۔۔“
”نینسی۔۔۔“ ولیم کو سمجھ نہ آیا کیا بولے۔
”کیا عمر ہے اس کی؟؟“ کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ نینسی خاموش رہی۔ وہ جانتا تھا جوان پروفیسر کالج میں اکثر پائے جاتے تھے۔
”اٹھائیس سال؟ تیس سال؟؟“
نینسی نے نفی میں گرد ہلائی۔
”پینتیس؟؟“ نینسی نے کرب سے آنکھیں موندھ لیں۔
”خدایا نینسی یہ تم کیسے کر سکتی ہو؟؟“ اس نے بےساختہ چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
وہ کسی صورت نینسی کے لیے ایسے شخص کو قبول نہیں کر سکتا تھا جو اس سے پندرہ بیس سال بڑا ہو۔
”تم اس شخص سے دوبارہ بات نہیں کرو گی نینسی تمہیں میری قسم ہے۔۔“ اب وہ غصہ تھا۔ نینسی جانتی تھی ایسا ہی ہوگا۔ اس نے نم آنکھوں سے ولیم کو دیکھا جس کے تاثرات تنے ہوئے تھے۔
”بعد میں بات کرتے ہیں۔۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکرین بند کردی۔ نینسی یونہی بیٹھی رہ گئی جبکہ ولیم اب اٹھ کر کمرے میں بےچینی سے ٹہلنے لگا۔ نینسی نے اس کا دماغ گھما دیا تھا۔ مذہب اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا پر وہ کیسے نینسی کو اپنے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنے دے سکتا تھا جو اُس سے کئی سال بڑا تھا۔ پتا نہیں کون تھا کیسا تھا۔ وہ جتنا سوچ رہا تھا بےچینی بڑھتی جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
کھیل کے میدان میں رات کے اس پہر چند اسٹوڈنٹس شورٹس(کھیل کی وردی) پہنے بھاگ رہے تھے۔ ان میں ایک ولیم بھی تھا۔ سیاہ گھٹنوں تک آتے ٹراؤذر اور سرخ شرٹ میں وہ اتنی سردی میں بھی پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔
سوکھا کہرا پڑ رہا تھا اور رات کے اس پہر رگبی کھیلنے والے وہ تمام نوجوان میدان میں موجود تھے جو قومی سطح پر کھیلنا چاہتے تھے۔ جیسے ہی سیٹی بجی ولیم بیضوی گیند لے کر بھاگا پر اگلے ہی پل وہ منہ کے بل گرا۔
مخالف ٹیم کے کھلاڑی اسے بے طرح گرا رہے تھے۔
”تم ٹھیک ہو؟؟“ نیل اسی کی ٹیم میں تھا۔ اس نے قریب آتے ولیم کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے نینسی کی وجہ سے حد درجہ پریشان تھا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا اور تو اور وہ میچ پر بھی فوکس نہیں کر پارہا تھا اور بار بار گرنے کی وجہ سے اسکے دونوں گھٹنے اور ایک کہنی چھل گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔“ وہ گھٹنوں کے بل جھکتے بولا۔
”میرے خیال سے آج رہنے دیتے ہیں کل پریکٹس کرلیں گے۔“ نیل کے مشورے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر وہ دونوں اپنے بیگ اٹھاتے گراؤنڈ سے باہر نکل آئے۔
”نینسی کیسی ہے اب؟؟“ نیل نے مخلصانہ پوچھا۔
”کل ٹھیک تھی آج صبح سے بات نہیں ہوئی۔۔“ بیگ کندھے پر لٹکائے وہ دونوں لمحہ بہ لمحہ گراؤنڈ سے دور ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے نیل مزید کچھ کہتا ولیم کا فون بج اٹھا۔ جارج کا فون تھا۔ ولیم کو تشویش ہوئی۔ اس نے فون اٹھاتے فوراً کان سے لگایا۔
”ہیلو ولیم۔۔“ جارج کی پریشان سی آواز ابھری۔
”ہاں بولو۔۔“ کافی دنوں بعد اس نے اسے ولیم پکارہ تھا۔ ورنہ جارج اسے ڈیفالٹ پیس ہی کہتا تھا۔
”ولیم وہ نینسی۔۔۔“
”کیا ہوا نینسی کو؟؟“ ولیم کے پیروں تلے سے ایڈنبرا کی زمین کھسکی۔
”وہ ٹھیک نہیں ہے۔ آج صبح بےہوش ہوگئی تھی۔ ہاسپٹل میں ہے۔ میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ میں اسے صبح واپس لا رہا ہوں سوچا تمہیں بتادوں۔۔“ وہ کافی سنجیدہ تھا اور جارج کا ہر جملہ ولیم کے چہرے کا رنگ اڑا رہا تھا۔
”کیا مطلب ہے بےہوش ہوگئی تھی؟ تم کہاں تھے؟ ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔؟؟“ وہ چلا اٹھا اور تیز تیز چلنے لگا۔ نیل ٹھٹھک گیا پر وہ سمجھ گیا تھا کچھ ضرور ہوا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ولیم کے ساتھ چلنے لگا۔
”میں دیکھتا ہوں ٹکٹ مل گئی تو ابھی آجاتا ہوں۔۔“
“تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے ولیم میں صبح اسے واپس لا رہا ہوں۔ ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے۔ شاید کئی دنوں سے اس نے کچھ کھایا نہیں۔۔“ جارج نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”تم سارا وقت کہاں تھے جارج؟ تم اس کا خیال نہیں رکھ پائے۔۔“ وہ اب اس پر غصہ کر رہا تھا۔
”ولیم میری اپنی ایک اسٹوڈنٹ لائف ہے۔ میں بےبی اسٹنگ نہیں کر سکتا۔ وہ بچی نہیں ہے تم بھی جانتے ہو۔ مجھے پتا چلا ہے اس کا بریک اپ ہوا ہے اس کی ایک کلاس فیلو نے بتایا۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا اس کا ریلیشن شپ کب اور کس سے شروع ہوا؟“ وہ خود جھنجھلایا ہوا تھا۔ مسٹر جوزف تک بات پہنچانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اسی کی کلاس لگتی اور یہاں معاملے کسی لڑکے کا تھا کیا پتا وہ کیسا ردعمل دیتے۔ فی الوقت جارج کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس کی بات سن کر ولیم ٹھہر گیا۔
”تم جانتے ہو وہ کون ہے؟؟ جسے نینسی پسند کرتی ہے؟“ اب وہ دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔
”میں نہیں جانتا۔ پتا نہیں کون ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ نینسی نے اس کے بارے میں کسی دوست کو نہیں بتایا۔ عجیب گڑبڑ ہے۔ میرا دماغ پھٹنے کو ہے۔ میں یہ سب ہینڈل نہیں کر سکتا۔“
جارج کی بات سن کر ولیم نے گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے تم صبح ہونے تک اس کا خیال رکھو۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا فون بند کرچکا تھا۔
”سب ٹھیک ہے؟“ نیل نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
”کچھ ٹھیک نہیں ہے پتا نہیں کیا ہورہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔“ وہ بوجھل قدم اٹھاتا چل پڑا۔
رات لمبی ہوگئی۔ وہ صبح تک یونہی جاگتا رہا۔ نینسی کا نمبر بند جارہا تھا۔ اس نے گھر میں کسی کو نہیں بتایا۔ جارج سے وہ وقفے وقفے سے اس کی خبر لیتا رہا اور پھر صبح کے کسی پہر اس کی آنکھ لگی تھی۔ اگلے دن اتوار تھا وہ سوتا رہا۔ ناشتے پر بھی نہیں اٹھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ اٹھ گیا۔ جارج کا فون تھا وہ لوگ ایئر پورٹ پہنچ چکے تھے۔ وہ جھٹکے سے اٹھا اور پھر فریش ہو کر ایئر پورٹ کے لیے نکل پڑا۔
نینی اسے آوازیں دیتی رہ گئیں لیکن وہ نہیں رکا اور ایئر پورٹ پر نینسی کو دل کر اس کا دل ساکت رہ گیا۔
وہ اینجل جیسی لڑکی مردہ لگ رہی تھی۔بہت کمزور۔ٹوٹی بکھری۔ یہ وہ نینسی تو نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا۔
آخر اسے ہوا کیا تھا؟؟
”ہائے۔۔“ نینسی اسے دیکھ کر مسکرائی پر وہ اسے نظرانداز کرتا اس کا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھتا فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔ جبڑے بھنچ گئے۔
”اتنی ناراضی؟؟“ وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھتے بولی۔ لہجہ خوشگوار بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ اس کی سنہری آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔ جارج ولیم کے ساتھ بیٹھ چکا تھا۔ ولیم نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر کچھ دیر بعد گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔
”کچھ لوگوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھ سے ہمیشہ مسکرا کر ملیں گے۔۔۔“ وہ اسے بولنے پر اکسا رہی تھی پر وہ یونہی بیٹھا رہا۔ تیوری چڑھی ہوئی تھی۔
نیلی پینٹ پر ہلکے بھورے رنگ کی اونی شرٹ پہنے اور سیاہ اوور کوٹ میں نینسی کا وجود چھپ گیا تھا پر اس کے چہرے کی ذردی نمایاں تھیں۔
”کچھ لوگوں کا دماغ ہمیشہ خراب ہی رہتا ہے ان سے کچھ اچھے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔۔“ نینسی کی بات پر جارج نے جواب دیا تو وہ ہلکا سا مسکرا دی۔جوزف پیلس آچکا تھا۔ وہ گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ جارج باہر نکل گیا۔ اب وہ سامان نکال رہا تھا۔ ملازم انہیں دیکھ کر بھاگتے ہوئے آگے بڑھے۔ جبکہ نینسی بھی یونہی بیٹھی۔ ولیم سے بات کرنا اس وقت بہت مشکل لگ رہا تھا۔
”ولیم۔۔۔“ نینسی نے ہولے سے پکارہ تو وہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتا باہر نکلا اور پھر زور سے دروازہ واپس دے مارا۔ نینسی اپنی جگہ پر اچھل پڑی۔ کیا وہ اتنا غصہ تھا۔ اب اسے پریشانی ہو رہی تھی۔ وہ نینسی کو وہیں چھوڑتا تیز تیز قدم اٹھاتا پیلس میں داخل ہوگیا۔
پیچھے جوزف نے سہارا دے کر نینسی کو باہر نکالا اور پھر اسے لے کر اندر آیا۔ نینی ان دونوں کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
”میری بچی کیا ہوگیا ہے تمہیں؟؟“ وہ اب نینسی کا منہ چوم رہی تھیں جبکہ نینسی کو ولیم کی فکر کھا رہی تھی۔ وہ کبھی اتنا غصہ نہیں ہوا تھا۔
مسٹر جوزف رات کے کھانے پر گھر آئے تھے۔ جارج اور نینسی کو دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔
”سب ٹھیک ہے نا؟؟“ وہ براہ راست نینسی سے پوچھنے لگے۔
”جج۔۔جی۔۔۔سب ٹھیک ہے۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔
”اور تم لوگوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟؟“ وہ اب جارج کی طرف متوجہ ہوئے۔
”زبردست۔۔“ وہ بمشکل مسکرایا۔ مسٹر جوزف سے کچھ چھپانا آسان نہیں تھا۔
”کھانے کے بعد میرے کمرے میں آنا مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔“ وہ نیپکن اتارتے اٹھ کھڑے ہوئے۔جارج کی جان پر بن آئی۔اس نے گھبرا کر نینسی کو دیکھا جس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا جبکہ ولیم یونہیں بیٹھا رہا جیسے کچھ جانتا ہی نہ ہو۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ولیم اٹھ کر چلا گیا۔
”تم دونوں کا جھگڑا ہوا ہے؟؟“ اس بار نساء نے نینسی سے پوچھا۔ وہ گھر آئی تھی اور ولیم اس سے بات بھی نہیں کر رہا تھا۔۔۔کیوں؟
”ہاں وہ غصہ ہے کہ میں نے خود کا خیال نہیں رکھا۔۔“ وہ روکھا سا مسکرادی۔
”تم دعا کرو میری گردن بچ جائے ورنہ مجھے آج قتل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔“ جوزف کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے بولا۔ اسے مسٹر جوزف کے سامنے پیش ہونا تھا۔
”انہیں کچھ مت بتانا۔۔“ نینسی نے التجا کی۔
”ان سے کچھ چھپا نہیں رہ سکتا۔۔“ وہ بیچارگی سے بولا اور پھر دو چار گہرے سانس لے کر وہاں سے نکل گیا۔
جبکہ نینسی سر جھکا گئی۔ اس کی ایک بےوقوفی نے سب کو کتنا پریشان کردیا تھا۔ اسے اب افسوس ہورہا تھا۔
”نینسی۔۔“ نینی نے اسے پکارا۔ وہ کپڑے بدل چکی تھی۔ اور اس وقت سفید اونی پنڈلیوں تک آتی فراک پہنے ہوئے تھی۔ بال آگے سے دو لٹیں پکڑ کر پیچھے باندھے ہوئے تھے باقی کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ ہونٹوں پر گلوز لگائے اس نے خود کو تازہ دم رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ سفید رنگ اس لیے پہنا تھا کیونکہ یہ ولیم کا پسندیدہ تھا اور شاید اس کا غصہ کم ہوجاتا۔
نینی کی آواز پر اس نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ نینی کو اس پر کسی اداس شہزادی کا گمان ہوا۔ برف کی شہزادی۔
”پریشان مت ہو بچے سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔“ وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی پر اس کی حالت کی پیش نظر بات بدل گئیں۔
”ارے دیکھو ذرا باہر برف باری ہورہی ہے۔ اس سال کی پہلی برف باری۔۔۔“ نساء کی آواز پر نینسی نے رخ موڑ کر دیکھا۔ دیوار گیر کھڑکی سے باہر روئی کے گالے اڑتے نظر آئے۔
”آپ دونوں لاؤنج میں بیٹھیں میں چائے کا انتظام کرتی ہو آج ہم خوب مزے کریں گے۔۔“ وہ چہکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بال اونچی پونی میں بندھے تھے اور وہ سیاہ چھوٹے چھوٹے گول بندکیوں (polka dots) والی مہرون فراک پہنے ہوئے تھی۔ بالکل ویسی جیسی نینسی نے پہن رکھی تھی۔ پیروں میں اونی چپٹے گرم جوتے۔
فراک کے بازو کافی کھلے تھے جو ہاتھ کے قریب کلائی پر آکر بند ہوجاتے تھے۔ کمر پر لگے بیلٹ نے فراک کو ایک خوبصورت شکل دے دی تھی۔ نساء اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ صوفی ملازمہ کے ساتھ مل کر برتن اٹھا رہی تھی۔
نینسی نے سہارا دے کر نینی کو اٹھایا۔ وہ دونوں اب لاؤنج کی طرف قدم دھر رہی تھیں۔ لاؤنج میں جگہ جگہ بنے آتش دان اس وقت جل رہے تھے جن سے پیلس کے اندر سردی کی شدت مٹ رہی تھی اور جگہ جگہ لگی مشعلوں نے پیلس کے اندھیرے کو مٹا دیا تھا۔
ابھی وہ لاؤنج تک پہنچی بھی نہیں تھیں جب پورے جوزف پیلس میں عجیب سی آواز گونج گئی۔ نینسی کے قدم ساکت ہوئے۔ اس نے جھٹکے سے پلٹ کر سیڑھیوں کی جانب اوپر دیکھا۔
آواز اوپر سے آرہی تھی۔ جیسے کوئی پیانوں پر بےترتیب ہاتھ مار رہا تھا۔
”جاؤ جا کر ولیم کو منا لو۔۔“ سب جانتے تھے اس گھر میں اوپری منزل پر لونگ روم میں رکھا وہ پیانوں صرف ولیم بجاتا تھا۔ جب وہ بہت خوش ہوتا تھا یا جب وہ بہت غصہ ہوتا تھا۔ نینسی نے اُن کی بات سنتے اثبات میں سر ہلایا اور انہیں صوفے پر بٹھاتے سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔
پہلے پیانوں کی کیز پر غصہ اترا پھر وحشت اور اب ڈیفالٹ پیس کی انگلیاں عجیب سی دھن بکھیر رہی تھیں۔ وہ اب بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔
پیلس میں ایک اداس دھن بکھرنے لگی۔ پیلس کی دیواروں کے درمیان بجتی وہ دھن سحرزدہ تھی۔ کوئی سن لیتا تو سن کر ٹھہر جاتا۔ وہ اب راہداری میں بھاگ رہی تھی۔ جلتی مشعلوں کے درمیان لکڑی کے فرش والی راہداری سے بھاگتی اب وہ کمرے کے دروازے میں آکھڑی ہوئی اور اس کے سامنے ہی کمرے کے کونے میں پیانوں کے سامنے ولیم بیٹھا تھا۔ دروازے کی جانب اس کی پیٹھ تھی۔
یہ لونگ روم تھا جس میں ایک جانب ڈھیروں کتابیں لکڑی کی شیلفوں میں سجی ہوئی تھیں۔ دوسری دیوار پر مسٹر جوزف کے کئی میڈل اور ایوارڈ سجے تھے۔ تیسری دیوار کے سامنے صوفے رکھے تھے اور چوتھی دیوار جس میں قدآور کھڑکی تھی اس کے سامنے وہ پیانو رکھا تھا جسے اس وقت ولیم بجا رہا تھا۔ پیانوں کے دونوں اطراف میں بڑے بڑے لکڑی کے اسٹینڈ تھے جن پر موم بتیاں رکھی جل رہی تھیں۔
نینسی قدم قدم چلتی اس کی جانب بڑھی۔ لمبے اسٹول پر دو لوگ آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ وہ بھوری کھلی پینٹ پر سفید اونی گول گلے والی اوور سائزڈ شرٹ پہنے، بکھرے بال، الجھا ذہن اور بگڑا مزاج لیے بیٹھا تھا۔
نینسی اس کے قریب پہنچ کر ساتھ بیٹھ گئی۔ یہاں بیٹھ کر پیانو کے پار کھڑکی سے باہر اڑتے برف کے گالے آرام سے دیکھے جا سکتے تھے۔
جیسے ہی نینسی ولیم کے قریب بیٹھی ولیم کے ہاتھ رک گئے۔ اُداس دھن خاموش ہوگئی۔ جوزف پیلس پر چھایا سحر ٹوٹ گیا۔ وہ خاموش بیٹھا رہا۔ اٹھ کر جانا چاہتا تھا پر ہمت نہ ہوئی۔ اُس کے وجیہہ چہرے پر غصہ واضح تھا لیکن اِس وقت وہ خود کو بےبس محسوس کر رہا تھا۔
” دوستی کا پہلا اُصول زیادہ دیر ناراض نہیں رہتے۔“ نینسی نے ہولے سے کہا۔
”دوسرا اصول دوستوں سے باتیں نہیں چھپاتے۔“ وہ تڑخ کر بولا۔
”ایم سوری ولیم۔۔“ وہ شرمندہ ہوئی۔
”تمہارے لیے وہ انسان اتنا عزیز ہوگیا ہے نینسی کہ ہماری کوئی اہمیت نہیں رہی؟؟“ وہ شکوہ کناں لہجے میں بولا۔
”اہمیت ہے ولیم۔ اہمیت ہے۔“ وہ ولیم کا ہاتھ تھامتے بولی۔
”جھوٹ۔۔۔“ اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
”پہلی بار دل ٹوٹا ہے ولیم میں برداشت نہیں کر پائی۔۔“ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہے تھے۔
”وعدہ کرو نینسی دوبارہ خود کے ساتھ ظلم نہیں کرو گی۔۔“ وہ اسکی جانب مڑتے بولا۔
”اب ایسا کچھ نہیں ہوگا پکا وعدہ۔۔“ وہ مسکرادی۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس شخص سے دور رہے لیکن وہ نہیں جانتی تھی آسیب کار اتنی جلدی پیچھا نہیں چھوڑتا۔
”تم ہماری فیورٹ دھن بجاؤ نا۔۔“ نینسی نے ہمیشہ کی طرح اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔ وہ اس شخص کو نہیں سوچنا چاہتی تھی جو ذہن سے چپک گیا تھا اور جس کے الفاظ اسے سونے ہی نہیں دیتے تھے۔
”تم جیسی بزدل لڑکی محبت نہیں کر سکتی۔آخر کر ہی کیا سکتی تم میرے لیے؟؟“ سماعت میں چند الفاظ گڈمڈ کرنے لگے۔
”دور رہو مجھ سے۔۔“ اس کے کندھے پر سر رکھنے پر ولیم برا سا منہ بناتے بولا۔ نینسی نے مسکرا کر آنکھیں کھول دیں۔ سامنے ہی گلاس ونڈو پر گرتی برف واضح تھی۔
”کبھی کبھی سوچتی ہوں وہ لڑکی کتنی خوش قسمت ہوگی جس سے تمہیں محبت ہوگی۔“ وہ ہولے سے مسکرا کر بولی۔ ولیم کی انگلیاں ہولے ہولے کیز پر پھسل رہی تھیں۔
”ایسی کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی۔۔۔“ وہ اسی انداز میں بولا۔
”تم مجھ سے محبت کرلو۔۔“ وہ اب شرارتاً بولی۔
”اس سے پہلے میں خودکشی نہ کرلوں۔۔“ وہ بھنا کر بولا۔
”کیا ہوگا جب ولیم جوزف کو محبت ہوگی۔۔“ وہ اب پرسکون ہورہی تھی۔ اس آسیب کار کا دیا درد کم ہوتا جارہا تھا۔ ولیم کے پہلو میں سکون ہی سکون تھا۔ وہ شخص ایسا کیوں تھا؟ وہ بس سوچے گئی۔
”میرا کوئی ارادہ نہیں تمہاری طرح عقل سے پیدل ہونے کا۔ میں حیران ہوں کہ انسان محبت میں اتنا بےوقوف کیسے ہوجاتا ہے۔ تف ہے ایسی محبت پر۔۔“ وہ اسی انداز میں بولتا گیا جبکہ نینسی نے اپنی پلکوں پر بھاری پن اترتا محسوس کیا۔اُس نے دھیرے سے آنکھیں دوبارہ موندھ لیں۔
”میں دیکھنا چاہتی ہوں وہ پل جب تم اپنا دل نکال کر اًس کے قدموں میں رکھنے سےدریخ نہیں کرو گے۔“ وہ ہولے ہولے بڑبڑانے لگی جبکہ ولیم کی انگلیاں بہت دھیمی اور پرسکون سی دھن بجا رہی تھیں۔
”میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ ایک محبت کے لیے باقی محبتیں بھول جاؤں۔۔“ وہ گردن اکڑا کر بولا۔
”ولیم جوزف تم اس اُیک محبت کے لیے خود کو بھی بھول جاؤ گے۔“ کتنا یقین تھا اسے۔
”ایسا نہیں ہوگا مجھے ذلیل ہونے کا شوق نہیں ہے۔“
وہ ہولے سے بڑبڑایا اور پھر نینسی کے جواب کا انتظار کرنے لگا پر وہ شاید سوچکی تھی۔ ولیم اس کی سب سے محفوظ جگہ تھا۔ اس جیسا تحفظ اسے کہیں نہیں ملتا تھا۔
وقت تیزی سے بھاگنے لگا۔ اب ان دونوں کی پشت نظر آرہی تھی۔ سفید فراک اور سفید شرٹ والا لڑکا۔ پھر کمرے کا دروازہ پھر راہداری۔ پھر سیڑھیاں پھر لاؤنج اور پھر جوزف پیلس چھوڑ کر آسمانوں کی جانب اڑان بھری۔ جوزف پیلس کی اوپری منزل کی کھڑکی سے ایک منظر واضح تھا۔ وہ دونوں پیانوں کے سامنے بیٹھے تھے اور پھر رخ تیزی سے آسمان کی جانب کرلیا گیا۔ ہواؤں کو چیرتا ہوا وہ سات سمندر پار بڑھ رہا تھا۔ وہاں جہاں وہ لڑکی پہلے ہی پیدا ہوچکی تھی۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
William Wali All Previous Episodes
Episode 4(part 01): Click Here Episode 3(part 02): Click Here Episode 3(part 01): Click Here Episode 2: Click Here Episode 1: Click Here

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

William Wali by Noor Rajput - Episode 1

William Wali Novel episode 4 - part 01

William Wali By Noor Rajput - Episode 02