William Wali By Noor Rajput - Episode 02

 

William Wali by Noor rajput pdf download

ولیم_ولی
قسط_نمبر_2
نور_راجپوت
یہ اتفاق نہیں تو اور کیا تھا کہ وہ لڑکی کل بھی وہاں موجود تھی اور آج بھی۔ کل بھی وہ خوبصورت لگ رہی تھی اور آج بھی۔ وہ انسانوں میں دلچسپی نہیں لیتا تھا پھر بھی ناجانے کیوں یہ چہرہ اسے یاد رہ گیا۔ اس نے نوٹس کیا پھر سر جھٹک دیا۔
اور تبھی دروازہ کھلا۔ ارسل اپنے پیرنٹس کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ گلاس ڈور جیسے ہی کھلا پورے رستوران میں ونڈ چارم کی پرسوز سی آواز گونج گئی۔ یہ ونڈ چارم داخلی دوازے پر لٹکا تھا اور دروازہ کھلتے بند ہوتے ضرور بجتا تھا۔ رستوران میں داخل ہوتے ہی سیدھی لمبی روش تھی کو کاؤنٹر تک جارہی تھی جبکہ دائیں بائیں سٹنگ ایریا تھا۔ دائیں جانب نارمل ایریا جبکہ بائیں جانب کپل ایریا تھا۔ ہلکے گلابی اور سفید رنگ کی دیواروں والا یہ رستوران شہر کا مہنگا ترین رستوران تھا۔ اور فجر آج دائیں جانب بیٹھی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ آج کا دن جیسے فیصلہ کا دن تھا۔
تھری پیس سوٹ پہنے برہان گردیزی کے چہرے پر نرماہٹ بالکل بھی نہیں تھی جبکہ مسز برہان مکمل پردے میں تھی انکے تاثرات کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ارسل فجر کو دیکھ کر اس کی جانب بڑھا۔
”السلام علیکم!“ وہ بمشکل بول پائی۔ حلق میں کانٹے آگ آئے۔
”وعلیکم السلام۔۔“ مسز برہان نے جواب دیا۔ فجر نے گھبرا کر ارسل کی جاںب دیکھا جس نے اُسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا پر وہ خود کافی پریشان تھا۔ آنکھوں سے رتجگا واضح تھا۔ برہان گردیزی نے اس کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ چاروں جانب عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے شاید انہیں خطرہ تھا کہ کوئی انہیں وہاں دیکھ نہ لے۔
مستطیل میز کے دونوں جانب رکھی آرام دہ صوفہ نما کرسیوں میں سے چار پر وہ چاروں ٹک گئے تھے۔ فجر کو اپنے چہرے سے تپش نکلتی محسوس ہورہی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ بار بار برہان گردیزی کو دیکھ رہی تھی جو وہاں غیر آرام دہ محسوس کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تو اسے گھر بلا سکتے تھے یا پھر اپنے آفس لیکن باہر کیوں؟؟
فجر سوچ ہی نہ پائی۔ وہ سوچ ہی نہ پائی کہ اس کی اہمیت اتنی بھی نہیں کہ اسے گھر بلایا جاتا۔۔۔۔ لیکن محبت نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ برہان گردیزی اپنے بیٹے ارسل گردیزی کے لیے خود آیا تھا۔ وہ فجر معراج سے ملنے آیا تھا فجر کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔
سیلنگ سے لٹکتے برقی قمقموں میں تذبذ کا شکار فجر دونوں ہاتھ گود میں گرائے بیٹھی تھی۔ برہان گردیزی سرد وسپاٹ تاثرات لیے اسے گھور رہے تھے جبکہ مسز برہان کو وہ لڑکی پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی۔
رستوران میں کافی کی تیز اور کیفین کی کڑوی سی، فوراً اثر کرنے والی، خوشبو پھیلی تھی۔ رستوران ابھی خالی تھا چند ایک لوگ بیٹھے اور زیادہ تر کافی ہی پی رہے تھے۔ گلاس ڈور پھر سے کھلا، ونڈ چارم کی سماعت کو سکون پہنچاتی آواز پھر سے گونجی اور ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ وہ تیز تیز چلتا ہوا آیا اور پھر ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے اس ہیڈ فون والے لڑکے کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔
ساتھ والے میز پر بیٹھے ان چاروں کے درمیان پھیلی خاموشی بھیانک ہونے لگی تھی تو ارسل فوراً بولا۔
”بابا یہ فجر ہے۔۔“ وہ فجر کی طرف دیکھتے بولا۔
”اور فجر یہ میرے بابا اور اماں ہیں۔۔“ فجر مسکرائی۔ اس نے باری برہان اور مسز برہان کی طرف دیکھا۔ جانے کیوں بار بار ہونٹ خشک ہورہے تھے۔ ویٹر آڈر لینے آیا تو ارسل نے کافی کا آڈر دے دیا۔
برہان گردیزی غور سے فجر کو دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ بیضوی چہرہ، روشن آنکھیں، لمبی گھنی پلکیں جو بار بار لرز رہی تھیں اور اس کی ٹھوڑی پر چمکتا وہ بھورا تل۔۔۔۔ ارسل تو کیا کوئی بھی لڑکا اس پر دل ہار جاتا۔ انہوں نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ جانے کیوں وہ چہرہ انہیں جانا پہچانا لگا۔
”کیا کرتی ہیں آپ مس فجر؟؟“ بالآخر وہ بول پڑے۔ بیٹے کی خوشی کے لیے یہ سب ضروری تھا۔
”فیشن ڈیزائنگ کی اسٹوڈنٹ ہوں لاسٹ سمیسٹر چل رہا ہے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”ارسل کے ساتھ کیوں ہو؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔ عجیب غریب سا۔ فجر نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ اس کی نظریں ایک پل کو برہان گردیزی سے ٹکرائیں اور اگلے ہی پل اس نے ارسل کو دیکھا وہ خاموش بیٹھا تھا۔ اُسے خاموش بیٹھنا تھا۔ اسے یہ حکم تھا۔
”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ شادی کرنا چاہتے ہیں۔“ اسے اپنی آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی۔
”غیر مرد سے محبت کی اجازت کس نے دی۔۔؟؟“
فجر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اس نے تڑپ کر ارسل کو دیکھا اور ارسل نے اپنے باپ کو۔ کوئی پوچھتا برہان گردیزی سے انہیں ایسے سوال کی اجازت کس نے دی تھی؟؟
”بابا پلیز۔۔۔“ وہ احتجاجاً بولا۔
”ہمارے خاندان میں سات پشتوں سے عورتیں شرعی پردہ کرتی آرہی ہیں۔ میں تمہیں اپنے خاندان کی بہو کیوں بناؤں۔۔؟؟“ بریان گردیزی کے چہرے کے نقوش بھنچے ہوئے تھے۔ بھنویں سکڑی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں کھلا استہزاہ تھا۔ فجر کا چہرہ خفت سے سرخ پڑا۔ وہ تو جانے کتنے جواب یاد کرکے آئی تھی لیکن یہاں تو سوال ہی بدل گئے تھے۔ اس نے ایک نظر برہا گردیزی کو دیکھا یہ نظر بڑی گہری تھی۔ خوبصورت نین نقش والا وہ شخص یقیناً اپنی جوانی میں کئی دلوں کی دھڑکن رہا ہوگا۔ سرمئی اور سیاہ بال ایک طریقے سے سیٹ تھے۔ قیمتی گھڑی کلائی میں بندھی تھی۔ تھری پیس سوٹ کے ساتھ چمچماتے جوتے پہنے وہ شخص اپنی بیٹے کی پسند کی لڑکی سے ملنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ اسے ذلیل کرنے آیا تھا۔
”فجر کو میں نے چُنا ہے بابا۔۔“ لہجے کو حد درجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکوں میں سے نئے آنے والے نے کسی بات پر قہقہہ لگایا جبکہ دوسرا، وہ فارنر، دھیمے سے مسکرایا تھا۔
ارسل کی بات سن کر برہان گردیزی نے گہرہ سانس فضا میں خارج کیا۔ ویٹر آڈر لے آیا تھا۔ ان کے سامنے اب سفید چمچماتے چوکور کپوں میں گہرے بھورے رنگ کی کافی رکھی جارہی تھی۔ چند پل کی خاموشی چھائی اور پھر ویٹر چلا گیا۔
”جوان بیٹا ہے پلیز تھوڑا حوصلے سے کام لیں۔۔“ مسز برہان نے اپنے پہلو میں بیٹھے اپنے شوہر سے عرض کی۔
”تمہارے ماں باپ کیا کرتے ہیں بیٹا۔۔۔“ اس بار مسز برہان بولیں۔ فجر کو تھورا حوصلہ ہوا ورنہ وہ رو دینے کو تھی۔
”اماں ہاؤس وائف ہیں اور ابا بیمار ہیں وہ کچھ نہیں کرتے گھر ہی ہوتے ہیں۔۔“ وہ شستہ لہجے میں بولی اور اب کافی کے کپ کے کناروں پر انگلی پھیر رہی تھی۔ برقی قمقموں میں اس کے ہاتھ اور اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔
”تو گھر کیسے چلتا ہے۔۔۔؟؟“
کیا کسی نے اُن کو بتایا نہیں تھا کہ وہ لڑکی دیکھنے آئے تھے اپنے بیٹے کے لیے۔ اپنی کمپنی کے لیے کسی ملازم کو ہائر کرنے نہیں۔ وہ کوئی انٹرویو نہیں تھا پر انہیں کون سمجھاتا۔ مسز برہان نیک دل خاتون تھیں۔ لیکن شوہر کے آگے وہ بھی مجبور تھیں یا شاید یہ اُنکا پہلا موقع تھا انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ بیٹے کی پسند سے کیسے ملا جاتا ہے اسے کیا رتبہ دیا جاتا ہے۔
”دکانوں کا کرایہ آتا ہے اور میں جاب کرتی ہوں۔“ اگر وہ ارسل کے ماں باپ نہ ہوتے تو فجر معراج کافی اُن کے خوبصورت چہروں پر انڈیل کر جاچکی ہوتی۔ وہ اُن کے خوبصورت چہروں کو بگاڑ چکی ہوتی۔ وہ ان کی باہر کھڑی مہنگی گاڑی کو آگ لگا چکی ہوتی لیکن کمبخت وہ پھنس چکی تھی کیونکہ وہ ارسل کے ماں باپ تھے۔
”کیا جاب کرتی ہو؟؟“ اگلا سوال ابھرا اور ارسل نے جبڑا بھینچ کر خود پر قابو پایا۔
”اسٹوڈنٹ ہوں اور پاکستان میں اسٹوڈنٹس کو کال سینٹرز میں ہی جاب کرنی پڑتی ہے۔۔“ لہجہ تیکھا ہوگیا ناچاہتے ہوئے بھی۔ برہان گردیزی نے بھنویں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھی فجر معراج کو دیکھا۔ ارسل بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا۔
”کتنے بہن بھائی ہیں؟؟“ وہ پتا نہیں کیا جاننے چاہ رہے تھے۔ سفید کپ میں رکھی گرم کافی اب ٹھنـڈی ہورہی تھی۔
”اکلوتی ہوں۔ ایک بڑی بہن تھی منار معراج تئیس سال پہلے انتقال ہوگیا۔“ اس بار چونکنے کی باری برہان گردیزی کی تھی۔ پیشانی پر لکیریں ابھریں۔ انہوں نے بےساختہ اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
”فجر معراج۔۔۔۔منار معراج۔۔۔معراج الدین کی بیٹیاں۔۔“
کچھ تھا جو ماضی کے گزرے پنّوں سے جڑگیا تھا۔ وہ اب سمجھے تھے سامنے بیٹھی لڑکی کا چہرہ اتنا جانا پہچانا کیوں لگ رہا تھا۔ انہوں نے بےساختہ ارسل کو دیکھا جو خود پر قابو رکھے بیٹھا تھا جو چاہتا تھا اسکا باپ فیصلہ اس کے حق میں دے دے۔ اسی لیے وہ اُنکی باتیں برداشت کر رہا تھا۔ منار معراج کے نام پر چونکی تو مسز برہان بھی تھیں۔ اُنہوں نے بھی پہلو بدلا تھا لیکن کہا کچھ نہیں۔
انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ماضی کسی روز یوں سامنے آجائے گا۔۔۔۔ آکر کھڑا ہوجائے گا۔
رستوران کا گلاس ڈور بار بار کھل رہا تھا۔ ونڈ چارم بار بار بج رہا تھا۔ لوگ آجارہے تھے۔ فجر سنجیدہ سی بیٹھی تھی۔
”تمہاری بہن کی موت کیسے ہوئی؟؟“
اس سوال کی اس نے خواب میں بھی توقع نہیں کی تھی۔ وہ حقیقتاً پریشان ہوگئی تھی۔
”منار کا یہاں کیا ذکر؟؟“
”وہ تو مرگئی تھی۔۔۔“
”وہ لوگ منار کو کیسے جانتے تھے؟؟“
”کیا کوئی راز ایسا تھا جس سے وہ ناواقف تھی؟؟“
ہزاروں سوال دماغ میں کھلبلا اٹھے۔
”میری مری ہوئی بہن کا یہاں کیا ذکر۔۔۔؟؟“ وہ واقعی اُلجھ گئی تھی۔ کیا والدین کے لیے اپنے بیٹے کی پسند کی لڑکی کو اپنانا اتنا مشکل کام ہوتا ہے؟؟ کیا وہ اُسے ایک موقع بھی نہیں دے سکتے؟؟ ہزاروں خدشے سانپ کی طرح پھن پھیلائے اس کے ارد گرد منڈلانے لگے۔ وہ اُسے ڈسنے کو تیار تھے اور فجر معراج کسی صورت یہ زہر برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
اُسکے الٹے سوال پر برہان گردیزی نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنے اندر اٹھتے ابال کو دبایا۔ اب اُنکے چہرے پر گہری ناپسندیدگی تھی جسے اُنہوں نے چھپانا ضروری نہیں سمجھا۔
”مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ارسل میرے ساتھ آؤ۔۔“ وہ ارسل کو حکم دیتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ارسل نے بےچینی سے فجر کو دیکھا جو رودینے کو تھی۔
”بابا۔۔۔“ برہان گردیزی دروازے کی جانب قدم بڑھاچکے تھے جب ارسل نے پکارہ۔
”رائٹ ناؤ ارسل۔۔۔“ وہ اونچی آواز میں بولے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ انکی آواز پر ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکے نے چونک کر دیکھا۔ ارسل اب فجر کو دلاسہ دیتے ان کے پیچھے لپکا۔
فجر اور مسز برہان اکیلی بیٹھی رہ گئی تھیں۔ خاموشی چھاگئی۔۔۔ وقفہ لمبا ہوا۔ فجر سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اسکی کافی کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ وہ کرسی سے پشت ٹکائے گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا اُسے آج سمجھ آیا تھا۔ کسی بھی لڑکے کے لیے اپنے ماں باپ کو منانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ کسی بھی لڑکی کے لیے اپنی محبت کی خاطر لڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
”کیا یہ اتنا مشکل ہے؟؟“ اس نے نظریں اٹھا کر مسزبرہان کو دیکھا۔ آنکھوں میں نمی کی تہہ تھی جسے وہ اندر چھپائے بیٹھی تھی۔ مسز برہان نے ناسمجھی کے عالم میں اُسے دیکھا۔
”کیا اتنا مشکل ہے فجر معراج کو قبول کرنا۔۔۔؟؟“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔ مسز برہان کے دل کو کچھ ہوا۔ انہیں اپنے بیٹے کی پسند سے مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ برہان گردیزی کو تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے سات پردوں میں چھپی لڑکی لانا چاہتے تھے اور اب انہیں انکار کا ایک اور جواز مل گیا تھا۔
منار معراج۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
گاڑی کی فضا میں اس وقت حبس تھی۔ برہان گردیزی اپنا کوٹ اتار چکے تھے اور پیشانی پر انگوٹھا جمائے وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ارسل بےتابی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا اُسکے باپ کو کیا ہوا تھا پر وہ اُنہیں ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”بابا۔۔۔۔“ بالآخر اس نے پکارہ۔
”تم جانتے ہو وہ لڑکی کون ہے؟ تم جانتے ہو اُس کا خاندان کیسا ہے؟ کیا تم اتنے اندھے ہوگئے محبت میں یہ تک نہ جان پائے اُس لڑکی کے خاندان نے ہمیں برباد کرنے کی قسم اٹھارکھی ہے۔۔۔ “ وہ بولے تو بولتے چلے گئے۔ چہرہ لال بھبھوکا ہوچکا تھا۔ باہر دھند اتر آئی تھی جبکہ ارسل ان کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔ اسکے خوبصورت چہرے پر پریشانی تھی آنکھوں میں بےیقینی تھی۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟“ وہ بمشکل بول پایا۔ وہ کسی صورت فجر کو نہیں گنوانا چاہتا تھا۔
”تم جانتے ہو تمہارا اکلوتا چچا نفسیاتی مریض کیوں ہے؟؟ جانتے ہو وہ وہیل چیئر پر کیوں ہے؟؟ جانتے ہو اسکی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟؟“
کوئی گہرا راز تھا جو کھلنے والا تھا۔ ارسل کا دل ڈوب کر ابھرا۔ اس نے پل کے ہزارویں حصے میں خواہش کی تھی کہ فجر کا اِس سے کوئی تعلق نہ ہو۔۔۔۔پر کبھی کبھی زندگی ہمیں منہ کے بل گرادیتی ہے جب ہمیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے یہ ہمیں دھوکا دیتی ہے۔ وہ بس اپنے باپ کو دیکھے گیا کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
”اس لڑکی کی بہن اور اس کا خاندان، انہوں نے مل کر فرقان (چچا) کو اس حال تک پہنچایا ہے۔۔۔“
اور ارسل کا دل ڈوب گیا۔ وہ جانتا تھا اب کبھی ابھر نہیں پائے گا۔
”یہ لڑکی صرف تمہیں استعمال کر رہی ہے۔۔۔“
ارسل کے ہونٹ بھنچ گئے۔
”میں کسی بےپردہ لڑکی کو پہلے ہی اپنے خاندان کا حصہ نہیں بنانا چاہتا تھا پر اب یہ سب جان کر کہ وہ کس خاندان سے ہے اس کا ماضی کیا ہے۔۔ اب تو بالکل نہیں۔۔“
ارسل نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”وہ لڑکی میری زندگی ہے بابا۔۔۔“
آنکھوں کو جھپک کر نمی کو اندر کھینچنا چاہا۔
”اور میں۔۔۔؟؟ میں کیا ہوں تمہارے لیے؟؟ تمہارا چچا کیا ہے تمہارے لیے۔۔؟؟“ وہ سخت لہجے میں بولے۔ وہ خاندان کو محبت کے مقابل لے آئے تھے۔
”میں اُس کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔۔“
”یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تمہارے چچا کو موت کے منہ میں بھیجنے کی ایک وجہ ہے۔۔۔؟؟“ وہ کتنے سخت دل تھے۔ ارسل کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ وہ اب انہیں نہیں دیکھ رہا تھا وہ رستوران کے اس گلاس ڈور کو گھور رہا تھا جس کے پار وہ لڑکی بیٹھی تھی جس کے ساتھ اس نے ہزاروں خواب دیکھے تھے۔ وہ اس کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔
”اماں آج بھی روتی ہیں فرقان کی یہ حالت دیکھ کر، وہ آج بھی اس لڑکی کو اور اس کے خاندان کو بددعائیں دیتی ہیں اگر انہیں پتا چلا کہ تم اُسی لڑکی کی بہن کو اِس گھر کی بہو بنانا چاہتے ہو وہ مرجائیں گی۔۔“ برہان گردیزی کاری وار کر رہے تھے۔ جانتے تھے بیٹے کو کیسے توڑنا تھا۔
”میں اُس کے لیے سب کچھ ہوں۔ میں نے اُسے چھوڑ دیا تو وہ ٹوٹ جائے گی۔۔“ اس نے ایک اور دلیل دی۔
”چاہے خاندان ٹوٹ جائے؟؟ چاہے باپ ٹوٹ جائے؟؟ میں نے تمہیں یہ تو نہیں سکھایا تھا ارسل۔۔۔“ انکے لہجے میں گہرا افسوس تھا جبکہ ارسل کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔
”میں اُسے چاہتا ہوں بابا۔۔۔“ اس نے جیسے منت کی۔
”اس جیسی ہزاروں آئیں جائیں گی ارسل۔۔۔۔“ خالص مردانہ لہجے میں کہا گیا۔ ارسل نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔“
برہان گردیزی کا خون کھول اٹھا۔
”ٹھیک ہے ہمیں چھوڑ دو۔ چلے جاؤ اور کبھی پلٹ کر مت دیکھنا۔۔“ یہ آخری فیصلہ تھا۔
”کیا آپ ایک بار۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”میرے جیتے جی وہ لڑکی ہمارے گھر کی بہو نہیں بن سکتی ارسل! میرے مرنے کا انتظار کرو پھر اپنی محبت نبھا لینا۔۔۔“ تابوت میں کیل ٹھونک دیا گیا۔ اور ارسل کے کندھے ڈھلک گئے۔ کچھ دیر گہری خاموشی چھائی رہی پھر وہ خاموشی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
آگے کیا کرنا تھا برہان گردیزی کو اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی وہ خود سمجدار تھا۔
رستوران کے دروازے کی جانب بڑھتے اُسکے قدم من من کے ہوگئے۔ کندھوں پر ڈھیروں بوجھ تھا اور دل تو حسرتوں اور خواہشوں کے بوجھ میں مارا گیا تھا۔
کاش دنیا کے سبھی ماں باپ اپنے جوان بیٹے کا وہ دکھ سمجھ پائیں جب اُسے ماں باپ اور اپنی محبت میں سے کسی ایک کو چننے کا حکم دیا جاتا ہے۔ کاش وہ سمجھ پائیں کہ وہ جوان لڑکے، وہ تواناہ مرد اس وقت بھربھری ریت کی مانند ڈھے جاتے ہیں۔ اُنکے دل مرجاتے ہیں اور پھر کبھی وہ پورے دل سے مسکرا نہیں پاتے۔ وہ وہ نہیں رہتے جو ہوتے ہیں وہ جیتے جی مرجاتے ہیں۔ کاش ماں باپ یہ سمجھ پائیں۔ آہ کاش۔۔۔۔!!
گلاس ڈور کھول کر ارسل اندر داخل ہوا اور شکستہ قدموں سے فجر کی جانب بڑھا۔۔۔وہ اُسکی جانب جارہا تو رہا تھا پھر حقیقت میں اُس کی جانب اٹھنے والا ہر قدم اُس سے فجر کو دور لے جارہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی فجر کی آنکھوں کے جُگنوں جل اٹھے۔ یوں جیسے تپتے صحرا میں چھاؤں مل جائے۔
پر فجر اُس کے ڈھلکے کندھے نہیں دیکھ پائی تھی اُس کے لیے اتنا کافی تھا وہ آرہا تھا۔
ساتھ والے ٹیبل کے قریب سے گزرتے اُس کی سماعت سے چند الفاظ ٹکرائے۔
”ولیم تم بہت سارے ملک گھوم چکے ہو بہت خوبصورتی دیکھی ہے تم نے۔ کہیں نظریں ٹھہریں ہیں؟؟ سب سے زیادہ خوبصورت کیا دیکھا تم نے؟؟“ وہ پاکستانی لڑکا اپنے ساتھ بیٹھے ، سیاہ کیپ اوڑھے فارنر سے پوچھ رہا تھا جس کی نظر بےساختہ اٹھی۔ بیوٹی ان پرپل اس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔!!
اب ارسل فجر تک پہنچ چکا تھا۔ فارنر لڑکے نے نگاہیں پھیر لیں۔
”بابا آپکا گاڑی میں ویٹ کر رہے ہیں۔۔“ اس نے مسز برہان کو ہولے سے کہا۔ ارسل کی آنکھوں کی بجھی جوت دیکھ کر وہ جان چکی تھیں فیصلہ کیا ہوا تھا۔ انہیں اپنے چاند سے بیٹے کے لیے برا لگا پر انہیں اپنے شوہر کے احکامات پر چلنا تھا اس لیے وہ فجر کا گال تھپتھپتا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”خدا تمہیں بہترین سے نوازے، تمہیں خوش رکھے آمین۔۔!!“ وہ اسے دُعا دیتی پلٹ گئیں جبکہ فجر نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ ایسی دعا کبھی اُسکی ماں نے اُسے نہیں دی تھی۔ اُسے تو ہمیشہ بددعائیں ملی تھیں۔
ارسل اب اس کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا فاصلہ رکھ کر بیٹھ چکا تھا اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ آنکھیں اٹھنے سے انکاری تھیں۔
”ارسل کیا کہا ہے انکل نے؟؟“ وہ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بولی۔ وہ خاموش رہا۔ کچھ بولنے کی ہمت کہاں تھی۔
”ارسل۔۔۔“ اسکی خاموشی بری لگی تو فجر نے پھر سے پکارہ اور اپنا سرد ہاتھ بڑھا کر اسکا گرم ہاتھ تھامنا چاہا لیکن ارسل نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے کرلیا۔
اسکی یہ حرکت ایسی تھی کہ فجر کا دل ڈوب گیا۔ چہرے کا رنگ خفت سے پھیکا پڑگیا۔
”ارسل۔۔۔“ بےیقینی اور صدمے سے اسے پکارہ گیا۔
”ایم سوری فجر۔۔۔“ وہ بولا بھی تو کیا۔ فجر کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ انہونی کا احساس جو روح سلب کر لیتا ہے۔
”میں یہ نہیں کر سکتا میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔“
روح سلب کر لی گئی۔ فجر کا چہرہ سفید پڑگیا کفن کی مانند۔
”وہ کہتے ہیں انہیں ایک شرعی پردہ کرنے والی بہو چاہیے جبکہ تم فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہو۔“
کیا یہ جواز تھا؟؟ وہ نظریں چرائے ہوئے تھا۔
”وہ تجھے آسمان سے زمین پر پٹخ دے گا۔۔۔“ اماں کے الفاظ گونج گئے۔
اس نے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا۔ اور اتنی اونچائی سے گرنے کی تکلیف کوئی فجر سے پوچھتا۔ وہ بےیقینی سے ارسل کو دیکھ رہی تھی جو کسی مجرم کی طرح چہرہ جھکایا بیٹھا تھا۔ وہ جانتی تھی ارسل اپنی بات کا پکا تھا۔ اس نے کہا تھا وہ اپنے ماں باپ کو اس سے ملوائے گا وہ لے آیا تھا اب وہ کہہ رہا تھا وہ اسے چھوڑ دے گا تو وہ چھوڑ دیتا۔ وہ پلٹ کر نہ دیکھتا۔
”وہ میرے ماں باپ ہیں فجر“
”ماں باپ کے سامنے ساری محبتیں دم توڑ جاتی ہیں۔۔۔“
اماں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
”میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا میں اپنے بابا کے خلاف نہیں جا سکتا۔۔۔“
”وہ تجھے کبھی نہیں اپنائے گا۔۔۔“
اماں کی کہی ایک ایک بات سچ ہورہی تھی۔
”ایم سوری۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی پل فجر کسی برے خواب سے جاگی۔
”نہیں ارسل۔۔۔“ اُس نے تڑپ کر ارسل کا ہاتھ پکڑ لیا گرفت مضبوط تھی۔ وہ ٹھہر گیا۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے لڑکے ٹھٹک گئے۔ وہ فارنر الجھی نظروں سے اُنہیں دیکھنے لگا۔ ابھی کل ہی لڑکا اس لڑکی کو رنگ دے کر پرپوز کر رہا تھا اور آج۔۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ چھڑائے جارہا تھا۔ کیوں؟؟؟
اس کے ساتھ بیٹھے دوسرے لڑکے نے بڑے نامحسوس سے انداز میں کیمرے کا رخ ارسل اور فجر کی جانب کرکے ویڈیو ریکارڈنگ کا بٹن دبا دیا۔
”ارسل پلیز۔ آپ مجھے نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ ایسے نہیں جا سکتے۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا ہاتھ کسی متاع جاں کی طرح پکڑا ہوا تھا جیسے وہ چھوٹ گیا تو سب ختم۔
ارسل نے اپنا بازو چھڑانا چاہا۔ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا جانتا تھا اگر دیکھے گا تو پگھل جائے گا۔ وہ رخ موڑے کھڑا تھا۔
”ارسل مجھے آپ کے بنا جینا نہیں آتا۔ آپ مجھے لے جائیں میں انکل کو منا لوں گی میں وہ سب کروں گی جو وہ چاہتے ہیں میں اُنکی ہر بات مانوں گی مم۔۔میں۔۔۔“ وہ بولتے بولتے سسکیوں سے رودی۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھا وہ فارنر لڑکا بےچین ہوا۔ اس کے جبڑے بھنچ سے گئے۔ اپنی کرسی پر بلاوجہ ہی پہلو بدلنے لگا جبکہ دوسرا لڑکا بڑے مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا بلکہ سب دیکھ رہے تھے۔
”فجر پاگل مت بنو لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔“ اسکا لہجہ سخت تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی انکی ویڈیو بنائے اور گردیزی خاندان پر کوئی بات آئے۔
”آپ مجھے دیکھ لیں پلیز۔ ایک بار دیکھ لیں۔ میں آپکی فجر ہوں آپ نے کہا تھا آپ میرے ہیں۔ آپ نے کہا تھا ہم ساتھ رہیں گے۔ مجھے چھوڑیں مت ارسل۔۔۔“
لڑکوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والی فجر معراج کی انا اُسکا غرور سب دور جا سوئے۔ اُس سے بچھڑنے کا خیال روح فرساں تھا۔ وہ اُسے چھوڑ رہا تھا یہ ناقابل یقین تھا۔ یہ ناقابل بیان تھا۔
”فجر چھوڑو مجھے۔“ ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔ وہ اُس کی پہنچ سے دور جانا چاہتا تھا اِس سے پہلے کہ وہ لڑکی اُسے اپنے فیصلے ڈگمگانے سے مجبور کردیتی پر اگلے پل جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔ وہ اُسکے قدموں میں بیٹھتی اس کا پاؤں پکڑ چکی تھی۔
لوگوں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھے۔ ”ہاہ ہائے“ کی آوازیں گونج گئیں۔
”کتنی بےشرم لڑکی ہے۔۔۔“ کسی خاتون نے تجزیہ کیا۔
”اپنی سیلف ریسپیکٹ کا ذرا سا خیال نہیں۔۔“ کسی نازک حسینہ نے نخوت سے بال لہرائے۔
”کوئی مجھے یوں ٹھکرائے میں تو اسے مڑ کر نہ دیکھوں۔۔“ تبصرہ کیا گیا۔
”ارسل مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔“ کیسی آہ بکا تھی۔ ارسل کا برہان کا دل ساکت ہوا۔ یہ سب کرنے کا فجر معراج نے بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا۔ اس کا دوپٹہ سر سے پھسل گیا۔
اُس کی کل کائنات ارسل تھا۔ وہ اُس کے لیے پاگل تھی۔ اُسے لگتا تھا ابا مرجائے گا تو وہ جی لے گی۔ اماں مرگئی تو بھی وہ جی لے گی پر ارسل بچھڑ گیا تو وہ مرجائے گی۔۔۔۔۔!!
اور اس پل فجر معراج کو اپنی موت چاروں طرف نظر آرہی تھی پر وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ جینا چاہتی تھی۔
”مجھے بھول جاؤ۔۔۔۔“ گلے میں اٹکے آنسوؤں کے گولے پر قابو پاتا وہ پوری قوت سے اپنا پاؤں چھڑائے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔ ایک آنسوں آنکھ سے پھسل کر گال پر بہتا چلا گیا تھا۔ گلاس ڈور کھلا اور بند ہوگیا۔ ونڈ چارم کی آواز پھر سے گونج گئی۔ رستوران میں موت جیسی خاموشی تھی۔ لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔
پیچھے وہ بیٹھی رہ گئی اکیلی۔ خالی ہاتھ خالی دامن!
وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔ اس کا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا۔ اماں کی بددعائیں قبول ہوچکی تھیں۔
ارسل برہان، فجر معراج کو چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اُس نے اپنے ماں باپ کو چن لیا تھا۔ ایک بار پھر ایک محبت ماں باپ کے ہاتھوں دم توڑ گئی تھی۔ وہ رو رہی تھی ہچکیوں سے۔۔۔۔۔ اور ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھا وہ فارنر لڑکا ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”ولیم میں اُسکے بنا مرجاؤں گی۔ مجھے اُسکے بنا جینا نہیں آتا۔۔۔“ اس کی سماعت سے کچھ جملے ٹکرانے لگے۔ کوئی دور اسے پکار رہا تھا کوئی اپنی تکلیف بیان کررہا تھا۔
وہ اب اپنا کیمرہ بیگ میں ڈال رہا تھا وہ اپنی باقی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
”واٹ ہیپنڈ۔۔؟؟“ اسے یوں اٹھتے دیکھ کر دوسرا لڑکا حیران ہوا۔ پر وہ کچھ نہ بولا۔ سپاٹ چہرہ لیے وہ اب اپنا بیگ کندھے پر ڈال رہا تھا۔
”ولیم پلیز ہیلپ می۔۔۔“ نسوانی آواز تیز ہوگئی۔ کوئی اسکے قریب آچکا تھا۔ کوئی اس کے داہنے جانب کھڑا تھا ایک ہیولا، پر وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ سسکیوں کی آوازیں واضح ہوتی گئیں۔وہ اسے التجائی نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ اس کی مدد چاہتی تھی۔ پھر وہ جھٹکے سے مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا گلاس ڈور کھول کر باہر نکل گیا۔ ہیولا ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ ونڈ چارم کی آواز پھر سے گونجی اور ساکت ہوگئی۔
✿••✿••✿••✿
خوشیوں کے دن ہمیشہ چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ غم کی شام لمبی ہوجاتی ہے پر فجر کی زندگی میں تو غم کی رات آئی تھی۔ ایسی لمبی رات جسکی کوئی صبح نہیں تھی۔ پرپل ڈریس میں سفید جیکٹ پہنے فجر کے چہرے کا رنگ بالکل جیکٹ جیسا سفید ہوچکا تھا۔ جانے وہ کتنی دیر رستوران میں بیٹھی رہی کسی میں ہمت نہیں تھی کوئی اسے اٹھاتا کوئی اسے بلاتا۔ پھر وہ کسی احساس کے تحت اٹھ کر باہر بھاگتے ہوئے باہر نکل آئی۔ اب وہ ارسل ڈھونڈ رہی تھی۔ آتی جاتی گاڑیاں دیکھ رہی تھی۔ پر وہ کہیں نہیں تھا اسے کہیں نہیں ہونا تھا وہ جاچکا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پر فجر کے لیے یہ سب کسی برے خواب کی مانند تھا جیسے وہ بھی نیند سے جاگ اٹھے گی۔ وہ خود کو تھپڑ مار رہی تھی وہ خود کو اس برے خواب سے جگانا چاہتی تھی پر یہ خواب نہیں حقیقت تھی اور خوفناک تھی۔۔۔!!
”ارسل۔۔۔ ارسل پلیز آجائیں۔۔۔“ وہ وہیں کھڑی رہی۔ رستوران کے دروازے کے باہر، اُسکا نمبر ملاتی رہی پر مطلوبہ نمبر بندجارہا تھا۔ وہ کھڑی رہی۔ ٹھنڈ سے ٹھٹھر گئی۔ ہونٹ نیلے پڑگئے۔ گارڈز اسے دیکھ رہے تھے اور اسکی نگاہیں سڑک پر تھیں جیسے ابھی اسکی گاڑی آکر رکے گی اور وہ کہے گا۔
”دیکھو فجر میں آگیا۔ میں مزاق کر رہا تھا۔ ایم سوری۔۔“
اور وہ اُسے فوراً معاف کردے گی۔ وہ اس سے پہلی بار لپٹ جائے گی وہ اُسکو اور اسکی خوشبو کو قید کرلے گی وہ اسے کہیں نہیں جانے دے گی۔ پر وہ نہیں آیا۔ وہ واپس آنے کے لیے نہیں گیا تھا۔ رات کے دس بجے اور پھر گیارہ۔۔۔وہ کھڑے کھڑے اکڑ گئی۔ آنکھوں میں آنسوں جم رہے تھے پر وہ رو نہیں رہی تھی۔ وہ انتظار کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا وہ آجائے گا وہ رات کے اس پہر اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا پر وہ نہیں آیا۔
”کیا آپ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔۔؟؟“ گارڈ بالآخر قریب آتے بولا۔ فجر نے چونک کر اسے دیکھا۔ کچھ کہنے کے لیے لب کھولے پر وہ پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ الفاظ گلے میں اٹک گئے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ آنکھیں لبالب بھرگئیں۔ اس نے بنا کوئی جواب پھر سے ارسل کا نمبر ملایا جو ابھی بھی بند جارہا تھا۔ وہ اسے میسجز کر رہی تھی پر شاید اس کا واٹس اپ بھی بند تھا۔
”کیا وہ واقعی اسے چھوڑ گیا تھا؟؟“ مشکل کا بہت مشکل تھا یہ قبول کرنا۔ پھر وہ بنا کچھ بولے ایک جانب چل پڑی۔ گھر میں اماں ابا کے پاس فون نہیں تھا کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تھا۔ چمچماتی روشنیوں میں رہنا اسے راس نہیں آیا۔وہ اب فٹ پاتھ کنارے چل رہی تھی۔ دماغ کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو الفاظ گڈمـڈ ہونے لگے۔
”فجر باہر جاتے وقت دوپٹہ سر پر اوڑھا کر۔ عورت کی عزت اسی میں ہے۔“ اماں کی آواز ابھری۔
”اوڑھتی ہوا اماں بس کبھی کبھی اتر جاتا ہے اور ارسل کو کوئی مسئلہ نہیں ہے میرے دوپٹہ سر پر نہ اوڑھنے سے۔ ویسے بھی وہ لوگ بہت اوپن مائنڈڈ ہیں انہیں ویسے بھی یہ سب نہیں پسند ہوگا۔۔۔“
اسے اپنی آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی۔
”انہیں شرعی پردہ کرنے والی بہو چاہیے۔۔“
دل کٹ کر سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ اور ہر ٹکڑا تڑپ رہا تھا۔
”ایک بات تو بتائیں ارسل۔۔۔“ اب وہ رستوران میں بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھی۔ ”اگر آپکے پیرنٹس نہ مانے تو آپ کیا کریں گے؟؟ مجھے چنیں گے یا انہیں۔۔؟“
”وہ مان جائیں گے میں انہیں منالوں گا۔۔“
پر اس نے فجر کی بات کا جواب نہیں دیا تھا اور فجر آج احساس ہوگیا تھا کہ اسے اپنے پیرنٹس کو ہی چننا تھا اس لیے وہ اسکی ایسی باتیں ٹال دیتا تھا۔
ہارن کی تیز چنگاڑتی آواز سنائی دی اور ایک گاڑی شوں کی آواز سے اسکے قریب سے گزری۔ وہ گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر چاروں جانب دیکھنا چاہا۔ گہری دھند میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ وہ حواسوں میں لوٹ آئی تھی اور اب سمجھ نہیں آیا کہ کہاں کھڑی تھی۔ اسے کچھ محسوس نہ ہوا نہ خوف نہ درد۔۔ وہ بس کھڑی رہی پھر فون نکال کر لوکیشن دیکھی تو گھر کے قریب ہی تھی۔ جانے وہ کب سے چل رہی تھی۔ رات کے اس پہر باہر اکیلے نکلتے جہاں عام لڑکیوں کی روح کانپ جائے وہیں فجر معراج اکیلی رہ گئی تھی۔ سامنے ہی مین سڑک تھی۔ وہ چلتے ہوئے وہاں تک آئی اور پھر ایک آٹو میں بیٹھ گئی۔ گھر کا پتہ اس نے سمجھا دیا تھا۔ آٹو والا موٹی چادر لپیٹے اب اس کے دیے گئے پتے کی جانب چل پڑا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اماں موٹی چادر اوڑھے بےچینی سے صحن میں ٹہل رہی تھی۔ وہ سردی سے ٹھٹھر چکی تھی لیکن پریشانی تھی کیونکہ فجر ابھی تک گھر نہیں آئی تھی اتنا لیٹ تو وہ آج تک نہیں ہوئی تھی۔ چاروں اور کہرا تھا اور سوکھی ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔
”یا اللہ اس لڑکی کو عقل دے۔۔“ وہ اسکی عقل پر ماتم کرتے بولی اور تبھی دروازہ کھٹکا۔ اماں تیزی سے دروازت کی اور بڑھی اور پٹ سے دروازہ کھولا۔ سامنے ہی وہ کھڑی تھی۔ لٹھے جیسا سفید چہرہ لیے۔ وہ کسی روبوٹ کی مانند کھڑی رہی۔
”یہ کوئی وقت ہے گھر سے باہر رہنے کا۔“ اماں نے بازو سے پکـڑ کر اسے اندر کھینچا۔ آج اس کی چال میں آج اس کے وجود میں وہ غرور وہ مان نہیں تھا جو تب ہوتا تھا جب جب وہ ارسل سے مل کر آتی تھی۔
فجر نے ایک نظر اماں کو دیکھا۔ خالی خالی سی نظر۔ اسکی ساری بددعائیں قبول ہوچکی تھیں۔ وہ بنا کچھ کہے اندر کی جانب بڑھ گئی۔ اماں کی بھنویں سکڑ گئیں وہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر اُسے ہوا کیا تھا؟؟
وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے تک آئی۔
”کیا ہوا؟؟ یہ مُردے جیسی شکل کیوں بنا رکھی ہے؟؟“
اماں نے لہجے اور آواز کو سخت ہی رکھا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ بیگ میز پر پھینک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”بول فجر کیا ہوا ہے؟؟“ کمرے کی دھیمی روشنی میں بیٹھی فجر اماں کو وہ فجر نہیں لگی۔
”تیری بددعائیں قبول ہوگئی اماں۔ ارسل نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔“ اماں کے کندھے ڈھیلے پڑگئے۔ چہرے کے تاثرات نرم ہوئے جبکہ دل پر منوں بوجھ آگرا پر اگلے ہی پل اماں کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔۔۔طنزیہ مسکراہٹ۔
”چل اچھا ہوا۔ سوجا اب۔ کل بلقیس کو بلاتی ہوں۔۔“
ان کے لہجے میں ذرا سا بھی تاسف نہیں تھا۔ وہ ذرا بھی افسردہ نہیں تھی۔انکی اکلوتی بیٹی کا دل اجڑ گیا تھا پر اماں کو کچھ محسوس نہ ہوا۔ وہ دروازے میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ فجر یونہی بیٹھی رہی۔
بلقیس اماں کے دور دراز کی رشتہ دار تھی جانے کس گاؤں میں رہتی تھی۔ اُسکا بیٹا کیا کرتا تھا وہ کچھ نہیں جانتی تھی نہ کبھی پوچھا تھا اور نہ دلچسپی تھی۔
اماں اُسکے جواب کی توقع کر رہی تھی پر وہ کچھ نہ بولی۔ خاموش رہی اور اِس خاموشی سے اماں کو ڈر محسوس ہوا۔ فجر خاموش رہنے والوں میں سے نہیں تھی وہ تو حشرنشر کردیتی تھی۔ اماں کی ہر بات کا تڑخ جواب دیتی تھی۔ آج اُسے کیا ہوا تھا؟؟ اماں نے اُچنبھے سے منہ پر ہاتھ رکھا۔
”اب کیا بیٹھے بیٹھے پتھر ہونا ہے؟ سوجا چپ کرکے تیرے نصیب ہی ایسے ہیں۔۔“ اماں کے لفظوں نے زخمی سینے کو چھلنی چھلنی کردیا۔ اس نے بےساختہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پیالے کی شکل میں جوڑ کر ہاتھ کی لکیروں کو دیکھا۔
”کیا اُن میں ارسل نہیں تھا؟؟ کیا وہ اُسکا نصیب نہیں تھا؟؟ کیا وہ بلقیس کے لڑکے کے لیے بنی تھی۔۔؟؟“ دل کرلایا تو آنکھوں میں آنسوں ابھر آئے۔
”تیرے ہاتھ خالی ہیں۔ ان میں کچھ نہیں ہے۔ کچھ تلاش نہ کر۔۔۔۔ سوجا“ اماں نے ایک اور وار کیا اور پھر دروازہ بند کردیا۔ وہ چہرہ ہاتھوں پر گرائے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
کیا کسی نے کسی کو یوں بھی چھوڑا ہوگا؟؟
کیا کسی نے کسی کو یوں بھی جھٹکا ہوگا؟؟
کیا اسکی ساری وفاؤں کا صلہ یہ تھا؟؟؟
”ارسل۔۔۔۔“ وہ تڑپ اٹھی۔
” ارسل واپس آجائیں۔۔۔“ وہ بیٹھے بیٹھے بستر پر گرگئی۔ گھٹنے سینے سے لگائے وہ کسی گھٹڑی کی طرح گول مول سی پڑی سسک رہی تھی۔ وہ شخص اس کی روح نکال کر لے گیا تھا اور تکلیف جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
بیوٹی ان پرپل اس وقت تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی۔
دنیا میں روزانہ ناجانے کتنے دل ٹوٹتے تھے، کتنے بریک اپس ہوتے تھے، کتنے رشتے ٹوٹتے تھے۔ کتنے پیارے بچھڑ جاتے تھے، مرجاتے تھے۔ سب کو تکلیف ہوتی ہوگی لیکن فجر کو لگتا تھا ساری تکلیفیں ملا کر اُسے دے دی گئی تھیں۔ درد حد سے سواء تھا اور ہمدرد کوئی نہ تھا۔
اماں بھرے دل کے ساتھ اپنے بستر میں آکر لیٹ گئی۔
”تو جیت گئی فجر کی ماں دیکھ فجر ہار گئی۔۔۔“ ابا کی آواز گونجی۔
”مجھے اُسکی خاموشی ڈرا رہی ہے۔۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔جبکہ ابا نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ جسم کو ذرا سا ہلانے پر انہیں کھانسی کا دورہ پڑتا تھا۔
”اب جیتنے کی باری میری ہے دیکھنا تو۔۔۔۔“ ابا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ عجیب سی سفاکیت۔ آج منار بھی نہیں آئی تھی آج اسکی بھی ہار ہوئی تھی۔ اماں نے گھبرا کر ابا کو دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔ آنے والے کل سے وہ ناواقف تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا۔ وہ فجر کی نماز کے لیے نہیں اٹھی۔ اماں دروازہ بجا بجا کر چلی گئی لیکن وہ نہ اٹھی۔ صبح آٹھ بجے آسمان سیاہ گہرے بادلوں سے ڈھک گیا۔ ٹھندی ہوا ہڈیوں میں گھسی جارہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دور کہیں بارش برس رہی ہو اور یہاں برسنے کو تیار ہو۔
”فجر اٹھ جا یونیورسٹی نہیں جانا تو نے؟؟“ اماں آوازیں دے رہی تھی۔انکے لیے سب کچھ نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”فجر۔۔۔نو بج گئے ہیں۔“ اماں کی کوفت زدہ آواز ابھری۔
اور پھر کھٹاک سے کمرے کا دروازہ کھلا۔ فجر باہر نکلی۔ سوجھی آنکھیں، ستا ہوا چہرہ، وہ ساری رات سوئی نہیں تھی اور اس وقت سفید کدھر کا موٹا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سر پر سفید سکارف تھا اور سیاہ موٹی شال کندھوں پر تھی۔
اسکا چہرہ سپاٹ اور تاثرات سے عاری تھا۔ یقیناً وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھی۔ پر سفید سوٹ پہن کر؟؟
وہ تو ہمیشہ سفید کے ساتھ کمبینشن میں پہنتی تھی۔
”کدھر جارہی ہو صبح صبح؟؟“ اماں نے اچنبھے سے پوچھا۔
وہ کچھ نہ بولی۔ بیگ کندھے سے لٹکائے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ یقیناً یونیورسٹی جارہی تھی۔
”یونیورسٹی سے سیدھا گھر آنا بلقیس نے آنا ہے آج۔۔“ گھر کا دروازہ پار کرتے اماں کی آواز سنی اور وہ پھر وہ دہلیز پار کر گئی۔ یہ سفید سوٹ اس نے ایسے ہی نہیں پہنا تھا۔ اپنی محبت کو ایک آخری موقع دینا تھا۔ وہ ارسل کے آفس جارہی تھی۔
آٹو میں بیٹھے اُس نے شال کو اچھے سے خود کے گرد لپیٹا۔ ارسل کا ہونا کتنا محفوظ احساس دلاتا تھا اور اب وہ اکیلی تھی۔ یوں لگا جیسے پوری دنیا میں وہ غیر محفوظ رہ گئی ہو۔ آنکھوں میں نمی ابھری اور جلن بڑھ گئی۔
اس نے ساری رات سوچتے گزاری تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ پہلے اسکے آفس جائے گی اسے منانے کی کوشش کرے گی۔ وہ اسکے لیے سب کچھ کرے گی۔ وہ شرعی پردہ کرلے گی وہ فیشن ڈیزائننگ چھوڑ دے گی۔ اور اگر وہ نہ مانا۔۔۔۔؟؟
پھر وہ کسی گاڑی کے نیچے آکر مرجائے گی کیونکہ وہ جی نہیں سکتی تھی۔ اپنی محبت ہار کر، اماں سے ہار کر تو بالکل نہیں۔ اسی لیے وہ سفید سوٹ پہن آئی تھی۔ کیا پتا کفن ملتا بھی یا نہی۔۔۔۔!! اس وقت وہ سفاک تھی خود کے لیے اپنی جان کے لیے۔
وہ کبھی ارسل کے آفس نہیں گئی تھی۔ اس نے باہر سے بھی نہیں دیکھا تھا اور رات اس نے انٹرنیٹ سے اسکے آفس کی لوکیشن نکالی تھی۔ گردیزی ٹیکسٹائل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے گردن پیچھے جھکا کر شیشوں والی اونچی عمارت کو دیکھا۔ شان وشوکت سے کھڑی گردیزی ٹیکسٹائل!
ایک گہرا سانس لیا پھر اپنا بیگ سنبھالتے اندر چلی گئی۔ صبح کے دس بج چکے تھے۔ یقیناً وہ آفس ہی ہوگا۔ اس نے موبائل نکالا اور اسکا نمبر ملایا پھر نمبر بند جارہا تھا۔ اندر ریسیپشن پر پہنچنے کے بعد اس نے ارسل کا پوچھا۔
” آپکا تعارف؟؟“ ریسیپشن پر بیٹھی خوبصورت سی لڑکی نے پوچھا۔
”میں فجر ہوں فجر معراج۔ آپ پلیز انہیں بتائیں وہ خود آجائیں گے۔۔“ محبت یقیناً انسان کے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دیتی ہے ورنہ رات والے واقعے کے بعد وہ کبھی پلٹ کر اسے نہ دیکھتی۔
”اوکے میم! ویٹ کیجیے پلیز۔۔۔“ وہ اب کریڈل اٹھائے مطلوبہ ایکسٹینشن ڈائل کررہی تھی جبکہ فجر چمچماتی دیواروں اور فرش کو دیکھتے ہوئے اب تھوک نگل رہی تھی نگاہیں چاروں جانب ہی اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ کاش وہ کہیں سے آجائے۔ کاش وہ نظر آجائے۔
”جی سر۔۔۔اوکے سر۔۔“ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا۔ لڑکی نے کریڈل واپس رکھ دیا۔
“سوری میم لیکن ارسل سر آپ کو نہیں جانتے آپ جا سکتی ہیں۔۔“ فجر کا چہرہ سفید پڑگیا۔
وہ اسے نہیں جانتا تھا؟؟ وہ جس نے ساتھ جینے کے کتنے خواب دیکھے تھے وہ اس سے انکاری تھا؟؟
”وہ مجھے جانتے ہیں۔۔۔“ وہ اب فون پر اس کا نمبر ملارہی تھی جو ابھی بھی بند تھا۔
”آپ پلیز میری ایک بار بات کروادیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔“ اس نے ریسیپشنٹ کی منت کی پر اسے بھی حکم ملا گیا تھا۔ اسے اپنی جاب پیاری تھی۔
”پلیز میری ایک بار بات کروادیں۔۔“ وہ رودینے کو تھی۔ سوکھے ہونٹ اور سوجھی آنکھیں لیے یہ دو دن پہلے والی فجر معراج نہیں لگ رہی تھی۔ بیوٹی ان ریڈ والی فجر معراج!
”کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟“ ایک سخت سی آواز اسے عقب سے سنائی دی۔ برہان گردیزی ابھی ابھی آفس میں داخل ہوئے اور فجر کو دیکھ چکے تھے۔ فجر نے جھٹکے سے پلٹ کر انہیں دیکھا۔
”انکل میری بات سنیں۔۔۔“ وہ بےتاب سی انکی جانب بڑھی۔
”وہیں رک جاؤ لڑکی۔۔۔“ ہاتھ اٹھا کر اسے روکا گیا۔ ان کے دائیں بائیں انکے دو ملازم کھڑے تھے۔
”اسے اندر کس نے آنے دیا؟؟“ وہ اب گارڈز پر برس رہے تھے۔
”انکل مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔“ اس نے سرخ متورم آنکھوں سے منت کی۔
”نکالو اسے یہاں سے باہر اور مجھے دوبارہ نظر نہ آئے۔۔“ وہ نخوت سے کہتے آگے بڑھ گئے جبکہ گارڈز کے بھاری بوٹوں کی آواز ابھری۔ وہ فجر کی جانب بڑھے اب وہ اسکا راستہ روکے کھڑے سے۔ اسے باہر جانے کا کہہ رہے تھے۔
”انکل پلیز! میری بہن کی غلطی کی سزا مجھے مت دیں۔۔“ وہ انکی جانب لپکی۔
انسان مرنے سے پہلے اپنے ہاتھ پاؤں مارتا ہے وہ پوری کوشش کرتا ہے کسی طرح بچ جائے وہ اپنا پورا زور لگاتا ہے اور فجر یہی کرنے آئی تھی۔ اسے موت اتنی جلدی قبول نہیں تھی۔
وہ ان تک پہنچنے کے لیے مچل رہی تھی۔ لیکن گارڈز نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیا اور فجر ساکت ہوئی۔
گارڈز اب اسے باہر لے جارہے تھے۔
ایسی ذلت ایسی سبکی۔۔۔۔کاش وہ مرجاتی۔۔۔۔!!
”چھوڑو مجھے، ہاتھ مت لگاؤ۔۔“ وہ خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی اور تبھی اس کی نظر اٹھی۔ بالائی منظر پر گول ریلینگ کے پار ایسکلیٹر کے قریب ارسل کھڑا تھا جو اس کا سب کچھ تھا۔ وہ خاموشی سے تماشہ دیکھ رہا تھا۔ وہ جو فجر کے کسی اور کو دیکھنے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا آج وہ فجر کو گارڈز کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ کر خاموش کھڑا تھا۔
وہ فجر معراج کی دنیا تھا وہ سب کچھ تھا۔ وہ اس کا بچھڑنا برداشت نہیں کر پارہی تھی اور پھر ایک لمحہ ہوتا ہے وہ لمحہ جس میں ہماری محبت ہماری ہی نظروں میں گر جاتی ہے۔ اور فجر کے لیے یہ لمحہ وہی تھا۔۔وہ آنکھوں پر چشمہ جماتے واپس پلٹ گیا۔ وہ آخری نظر تھی وہ آخری موقع تھا جو وہ شخص گنوا چکا تھا اور فجر کا سر جھک گیا۔ اس کی محبت اس کی اپنی نظروں میں گر گئی۔ گارڈز نے گلاس ڈور کھول کر اسے باہر نکال دیا۔
اور پھر ہر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب وہ اپنے ہی دل پر قدم رکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
ارسل برہان کی زندگی میں یہ لمحہ ایک دن پہلے آ چکا تھا اور فجر معراج کی زندگی کا یہ لمحہ اب تھا۔
وہ لمحہ جو عذاب تھا۔۔! وہ لمحہ جو آغاز تھا۔۔!
ایک قدم رکھنا تھا دل پر اور سب آسان ہوجاتا بس وہ ایک قدم اٹھانا تھا۔ وہ پتھر کا بت بنے کھڑی رہی۔ دل جیسے سینے میں بند ہوچکا تھا۔ آنکھیں ضبط سے میچ لیں۔ محبت دل سے اتری تو اس نے دل پر قدم رکھ ہی دیا۔ گردیزی ٹیکسٹائل کی عمارت شان و شوکت سے کھڑی تھی۔ ہوا کے تھپیڑے اس سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہے تھے۔ اب وہ گردیزی ٹیکسٹائل کے مخالف قدم بڑھا چکی تھی۔ پہلا قدم ارسل برہان سے دوری کا پہلا قدم۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا اس نے ارسل کو گنوایا تھا پر حقیقت یہ تھی وہ شخص فجر معراج کو گنوا چکا تھا۔ وہ اسے کھو چکا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
✿••✿••✿••✿
بارش یک دم ہی شروع ہوئی اور پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ کندھے پر بیگ جمائے تیز تیز چلتا بس اسٹاپ کی جانب بڑھا رہا تھا۔ گیلی شاہراہ پر اس وقت گاڑیاں تیزی سے مخالف سمت میں آ جارہی تھیں۔ بس اسٹاپ خالی تھا۔ شہر کا یہ سب سے ڈیویلپڈ ایریا تھا شہر سے تھوڑا باہر جہاں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی تھیں اور یہ ایریا ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسوب تھا۔
وہ جیسے ہی بس اسٹاپ پر پہنچا اس نے اپنا بیگ اتار کر بینچ پر رکھا جسکے اوپر لوہے کا شیلٹر بنا تھا اور نیچے مسافر دھوپ، سردی اور بارش کے موسم میں، کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرتے تھے۔ شیلٹر کے دونوں جانب کی دیوار شیشے کی بنی تھی تاکہ بارش سے بچا جا سکا۔ مزید سمجھا جائے تو یہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی ٹائپ بنا تھا جسکے آگے پیچھے کی دیوار خالی تھی جبکہ دائیں بائیں شیشے کی دیواریں تھیں۔ دن کے اس وقت بس اسٹاپ پر رش نہیں تھا لوگ اپنے اپنے دفتر وقت پر پہنچ چکے تھے۔ یہ سب سے بہترین موقع تھا۔ اس نے اپنے بیگ سے اسٹیںند نکالا اور زمین پر جما دیا تین ٹانگوں والا یہ لوہے کا نازک سا دکھنے والا اسٹینڈ کافی مضبوط تھا۔ اِس نے بعد اُس نے کیمرہ نکالا اور اسٹینڈ پر جما دیا اور اسے تھوڑے سے فاصلے پر رکھا۔ ویڈیو ریکارڈنگ شروع ہوچکی تھی۔ اُسکا چہرہ سپاٹ تھا جبکہ ہاتھ تیزی سے کافی کر رہے تھے اب اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ کی اسپیکر نما گول مشین نکالی۔ یہ اتنی چھوٹی تھی کہ اِسے ہتھیلی میں بند کیا جا سکتا تھا۔ اس مشین کے ساتھ اُس نے ہیڈ فون کی تار اٹیچ کی اور سیاہ کیپ کے اوپر سے ہیڈ فون کو کانوں پر جما لیا۔ وہ اس وقت بھی سیاہ کیپ اوڑھے ہوئے تھا جس سے اُسکا آدھا چہرہ چھپا ہی رہتا تھا۔
بس اسٹاپ کی پچھلی جانب آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑی سی عمارت تھی۔ گردیزی ٹیکسٹائل۔
وہ اپنا سیٹ اپ کر رہا تھا جب ایک لڑکا بھاگتے ہوئے بس اسٹاپ تک پہنچا وہ کچھ دیر اسے کام کرتے دیکھتا رہا اور پھر بس جیسے ہی بس آکر رکی آٹو میٹرک دروازہ کھلا تو وہ اندر چلا گیا۔ بس سے دو لڑکیاں اتریں جنہوں نے چھاتہ پکڑا ہوا تھا وہ کچھ دیر اُسے دیکھتی رہیں اور پھر گردیزی ٹیکسٹائل تک جانے والی چھوٹی سی سڑک کی جانب چل پڑیں۔ شاید انکی آفس ٹائمنگ یہی تھی۔
ہیڈ فون کو کانوں پر سیٹ کرنے کے بعد اُس نے اس مشین کو چھوٹی سی گلاس وال پر جمادیا۔ وہ کسی مقناطیس کی طرح گلاس سے چپک گئی۔ گلاس وال پر پانی تیزی سے بہہ رہا تھا پھر اُس نے مشین پر موجود ایک چھوٹا سا بٹن دبایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ فاصلے پر رکھا کیمرہ یہ سب ریکارڈ کر رہا تھا جس میں اسکا چہرہ واضح نہیں تھا وہ اپنے چہرے کو سامنے نہیں لاتا تھا۔ وہ اب مشین کے پاس کھڑا تھا چہرہ جھکا ہوا تھا اور گلاس وال پر لگی مشین واضح نظر آ رہی تھی۔ سیٹنگ کرتے اس کے ہاتھ واضح تھے۔ سیاہ بیگی پینٹ پر بھوری اوور سائزڈ گول گلے والی اونی شرٹ پہنے وہ بند آنکھوں کے ساتھ کسی اور دنیا کا باسی لگا۔
جیسے ہی بٹن آن ہوا ٹپ ٹپ کی تیز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ کوئی عام انسان اُسے دیکھے تو سمجھ ہی نہ پائے آخر وہ کیا کر رہا تھا۔
وہ ایک فیلڈ ریکارڈسٹ تھا۔ وہ قدرتی آوازوں کو ریکارڈ کرتا تھا۔
ہوا کی، بارش کی، پتوں کی، درختوں کی، گلیشیرز کی، پونڈ کی، پول کی، دریا کی، ریت کی، مٹی کی، گھاس کی، آندھی اور طوفان غرض کہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والی ہر آواز کو ریکارڈ کرنا اُسکا کام تھا۔ اُس کے پاس مختلف میڈیمز کے لیے مختلف مشینیں اور ڈیوائس تھیں۔ وہ یہ آوازیں ریکارڈ کرتے وقت ویڈیوز بناتا تھا اور اس پل بھی وہ یہی کام کر رہا تھا۔ کئی ثانیے گزر گئے وہ یونہی کھڑا رہا۔
”ولیم ہیلپ می۔۔۔!!“ تیز جھنجھناتی آواز اُبھری اور اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ جانے وہ کتنی دیر کھڑا رہا تھا۔ جانے اسکا دماغ کہاں غائب رہا تھا۔ اس نے چاروں جانب نظر دوڑائی کوئی بھی نہیں تھا۔ گاڑیاں شوں کی آواز سے گزر رہی تھیں۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر اسٹینڈ پر لگے کیمرہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہوگیا۔ تھورا جُھکا اور پھر سلو موشن پر سیٹ کرکے اس نے کیمرہ کا رخ بائیں جانب موڑا جہاں سڑک تھی اور گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ بارش پہلے سے ہلکی تھی۔ اب وہ کیمرہ گُھما رہا تھا سڑک سے ہوتا کیمرہ واپس گلاس وال پر چپکی مشین تک آیا اور پھر دائیں جانب مڑ گیا۔ بس اسٹاپ کے پیچھے پودے لگے تھے وہ اب زوم کرکے پتوں پر گرتی بارش ریکارڈ کر رہا تھا۔ کیمرہ تھوڑا اور دائیں جانب گھمایا تو پتلی سی سڑک پر، جو بس اسٹاپ کی جانب آرہی تھی، وہ آتی دکھائی تھی۔ سیاہ شال لپیٹے ٹپ ٹپ گرتی بارش میں وہ غائب دماغی سے چل رہی تھی۔۔۔۔۔
اور کیمرہ وہیں ٹھہر گیا۔ ہاتھ ساکت ہوئے وہ جو کیمرہ کے لینز پر جھکا ہوا تھا وہیں رک گیا۔ گردن کو تھوڑا دائیں جانب گرایا کیمرہ لینز کی بجائے اپنی کتھئی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ سفید رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا۔۔۔۔۔
"Beauty in White.."
وہ اس کے سامنے تھی وہ اسی جانب آرہی تھی۔ سرد آنکھوں کا تاثر نرم پڑگیا۔ بھنچے ہوئے جبڑے ڈھیلے پڑے۔ وہ انسانوں کی تصویریں نہیں لیتا تھا۔ وہ انہیں ریکارڈ نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس کے کیمرہ میں خود بخود آگئی تھی۔ وہ سیدھا ہوا اور کیمرہ بند کردیا۔ اسٹینڈ سے اتار کر بینچ پر رکھا اور اسٹینڈ لپیٹ کر بیگ میں رکھنے لگا۔ وہ بس اسٹاپ تک آئی اور غائب دماغی سے کھڑی رہی۔ اس نے پاکستان میں پہلا بریک اپ دیکھا تھا۔ پہلی بار کسی لڑکی کو یوں کسی مرد کے پاؤں پڑتے دیکھا تھا۔
وہ وہیں کھڑی تھی شاید بس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے کپڑے کسی حد تک گیلے ہوچکے تھے۔ ٹھندی ہوا چلنے کے باعث ہونٹ نیلے پڑگئے جبکہ ناک سرخ۔
ولیم نے ایک نظر فجر کو دیکھا اور پھر اپنی مشین گلاس وال سے اتار لی۔ اس کا کام ختم ہوچکا تھا وہ وہاں سے جا سکتا تھا پر وہ گیا نہیں۔۔۔۔
وہ ملکوں ملکوں گھومتا تھا پر وہ لوگوں سے کم ہی بات کرتا تھا۔ اس وقت بھی اسے سمجھ نہ آیا بات کرنی چاہیے یا نہیں۔
وہ بت بنی اسکے بائیں جانب کھڑی رہی۔
”ولیم۔۔۔“ اس کے داہنے کان کے قریب کسی نے سرگوشی کی۔ وہ پھر سے آگئی تھی۔ وہ ہیولا۔۔۔ وہ ساکت ہوا۔ وہ جانتا تھا وہ اسکے قریب ہی کھڑی تھی۔ سلک کے سفید لہلاتے سلیولیس گاؤن میں، بھورے اڑتے بالوں کے ساتھ، ننگے پاؤں وہ پھر آگئی تھی۔
”ولیم ہیلپ ہر۔۔“ ایک اور سرگوشی ابھری۔ وہ ہمیشہ ”ہیلپ می“ کہتی تھی آج اس نے پہلی بار 'Help her' کہا تھا۔ وہ کسی اور کی مدد کرنے کا کہہ رہی تھی۔ ولیم نے ذرا سی گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ بائیں جانب تھی۔ بیوٹی ان وائٹ عجیب سی نظروں سے دائیں جانب سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دیکھتی رہی۔ گاڑی قریب آرہی تھی اور پھر اگلے ہی پل وہ بس اسٹاپ سے نیچے اتری اب وہ اسکا رخ سڑک کی جانب تھا وہ چاہتی تھی گاڑی اسے کچل دے۔ گاڑی مزید قریب آ ئی۔ ہارن بجنے لگا وہ انتظار کر رہی تھی گاڑی کے اورر قریب آنے کا۔ مسافروں سے بھری، بڑی تیز رفتار بس، جو اسے کچل کر آگے بڑھ جاتی۔
وہ جانتا تھا اگلے پل وہ کیا کرنے والی تھی۔ اسکی حواس خمسہ بہت تیز تھی۔ وہ جانتا تھا وہ خودکشی کرنے جارہی تھی۔ وہ جانتا تھا بریک اپ کے بعد اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہ سب جانتا تھا پر بت بنا کھڑا رہا۔ وہ اسکی مدد کرنا نہیں چاہتا تھا وہ چاہتا تھا بیوٹی ان وائٹ اس کے سامنے دم توڑ دے پر۔۔۔۔۔۔
"William Help Her.."
آواز اتنی اونچی تھی کہ ولیم کے وجود کو جھٹکا لگا اگلے ہی پل وہ اچھل کر فجر تک پہنچا اور اس نے اپنی پوری قوت سے اسے واپس کھینچ لیا۔ گاڑی ہارن بجاتی شوں کی آواز سے گزر گئی۔ وہ کسی خواب سے جاگی۔
"Are you Mad..??"
وہ غصے سے چلایا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو تیار۔۔۔۔اور ایسی ہی حالت فجر کی تھی۔ وہ تو جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ اس نے ایک پل کے لیے اپنے مردہ، ٹکڑوں میں بٹے وجود کو خون میں لتھڑے سڑک پر پڑا تصور کیا۔ اور اگلے ہی پل اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ اسکے قریب کھڑا تھا۔ شعلے بار آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے۔ وہ جبڑے بھینچے ہوئے تھا۔ اس کی کتھئی آنکھوں میں بےپناہ غصہ تھا اور اگلے ہی پل اس نے جھٹکے سے فجر کو خود سے دور کیا۔
"Do you think it's easy to die?"
”تمہیں کیا لگتا ہے مرنا اتنا آسان ہے۔۔؟؟“ وہ اب اپنا بیگ اٹھا رہا تھا۔ اسکی انگلش شستہ تھی۔ فجر اسے بخوبی سمجھ سکتی تھی کیونکہ انگریزوں سے بات کرنا اسکا روزانہ کا کام تھا۔
"Idiot, stupid.."
وہ اب اسے سنا رہا تھا۔ جھنجھلایا ہوا۔
"You Lily_Livered"
وہ جھٹکے سے مڑا اور انگلی اٹھا کر اسے نئے القاب سے نوازہ۔ بس نہیں چل رہا تھا ایک دو بار تھپڑ جڑ دیتا۔
فجر حیرت سے اسے دیکھے گئی۔ اس نے پہلی بار یہ لفظ سنا تھا اور اس کا مطلب ہوتا ہے بزدل شخص۔ اسکی انگلش اچھی تھی پر
vocabulary
ابھی اتنی اچھی نہیں ہوئی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا وہ فٹافٹ گوگل سے مطلب دیکھتی اور پھر فون ولیم کے سر میں دے مارتی پر فی الوقت فجر کے جبڑے بھنچ گئے۔ کچھ بولنا چاہتی تھی پر کچھ نہ بولی خاموشی سے قدم بڑھا کر بینچ پر بیٹھ گئی۔ جبکہ وہ اپنا سامان اٹھائے، بیگ کندھے پر لٹکاتا، دائیں جانب چل پڑا۔ وہ وہیں بیٹھی رہی۔ نظریں پھر سے خالی ہوگئی۔ دل ایک بار پھر کُرلایا۔ ہاں مرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بارش بند ہوگئی۔ آنکھیں پھر سے جلنے لگیں۔ اماں کی صبح والی بات یاد آئی۔
بلقیس کے لڑکے سے اماں اُس کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ ہار گئی تھی۔ وہ اماں سے ہار گئی تھی پر یہ ہار قبول نہیں ہورہی تھی۔ ٹھٹھرتی سردی سے وجود کپکپانا شروع ہوا۔ وہ اب بینچ پر بیٹھی کانپنے لگی۔ کیوں بچایا تھا اُس نے؟؟ مرجاتی تو اچھا تھا۔ دل پر قدم رکھ کر آگے بڑھ آئی تھی وہ ارسل کو اپنی زندگی سے نکال چکی تھی پر دل کیوں تڑپ رہا تھا؟؟ اتنی ٹھنڈ میں بھی یہ جلن کم کیوں نہیں ہورہی تھی؟؟
وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا اُس سے دور ہوا۔ دماغ بری طرح گھوم چکا تھا۔ کیا ہوتا اگر وہ اُسے نہ بچاتا؟؟ بیوٹی ان وائٹ مرجاتی۔ وہ جھرجھری لے کر رہ گیا۔
”کیا تم اُسے ایسے ہی چھوڑ دو گے۔۔؟؟“ وہ ہیولا اب اُس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ پر ولیم نے نظر اٹھا کر ہیولے کو نہیں دیکھا۔ آج بھی اُس کی وجہ سے اس نے ایک انجان لڑکی کی جان بچائی تھی۔
”اگر اُس نے پھر سے خودکشی کی کوشش کی تو؟؟“ اِس بار وہ رک گیا۔ پلٹ کر دیکھا تو فجر وہیں بیٹھی تھی۔ اُس نے ضبط کرتے چہرے پر ہاتھ پھیر کر گہرا سانس فضا میں خارج کیا اور پھر واپس بس اسٹاپ کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اگلے چند لمحوں میں وہ اُس سے کچھ فاصلہ رکھے بیٹھا تھا۔
وہ آکر بیٹھ تو گیا تھا پر نہیں جانتا تھا کیا بولے؟؟ بات کہاں سے شروع کرے؟ اُسے دلاسے دینے نہیں آتے تھے۔ وہ کسی کا دکھ نہیں بانٹ سکتا تھا پر اِس پل چاہتا تھا کہ وہ لڑکی جسکا نام تک وہ نہیں جانتا تھا وہ خودکشی کا نہ سوچے۔
”زندگی میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، محبت بھی ہو جاتی ہے اور بچھڑ بھی جاتی ہے پر زندگی رُکتی نہیں۔۔“ وہ خود کو ریلیکس کرتے بولا۔ لہجہ نارمل تھا فجر خاموش بیٹھی رہی۔
”زندگی میں آنے والا ہر شخص آپکا نہیں ہوتا اور کوئی بار بار آپکو بچانے نہیں آتا۔ اپنی زندگی کی قدر کرنا سیکھو۔۔“ وہ ہولے ہولے بولتا رہا۔ فجر کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔
”ویسے تمہیں میری بات سمجھ آرہی ہے نا؟؟ انگلش تو آتی ہے نا تمہیں۔۔؟؟“ اس نے گردن کا رخ موڑ کر فجر کو دیکھا۔ اُسکی بات سنتے ہی فجر کی تیوری چڑھی۔ اس نے جھٹکے سے ولیم کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ چبا چبا کر بولی۔
”انگلش آتی ہے مجھے پر آپ کو گیان جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔“ اسکا لہجہ برٹش تھا۔ ولیم جتنا پرفیکٹ تو نہیں لیکن وہ اُسکی بات سمجھ گیا۔ وہ اب سڑک کنارے بنے چھوٹے سے کھڈے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی جس میں بارش کا صاف پانی جمع تھا اور شیلٹر کی چھت سے ٹپکتا پانی قطرہ قطرہ اس میں گررہا تھا۔ ہر قطرے پر گول گول لہریں ابھرتیں اور کنارے تک آتی مٹ جاتیں۔ ٹپ کی آواز ابھرتی اور خاموشی چھا جاتی۔
”ایک فارنر جس نے تمہاری جان بچائی ہو اُس سے ایسے بات کرتی ہو تم؟؟“ وہ ابرو اچکائے پوچھنے لگا۔
”تم جیسے لوگوں سے بات کرنا روز کا کام ہے میرا۔ میں اچھے سے جانتی ہوں فارنرز کو۔۔۔“ وہ چاہتی تھی یہ بات جلد ختم ہو تاکہ وہ فارنر اسکی جان چھوڑ دے۔ اسکا ذہن فی الوقت کہیں اور الجھا تھا۔ اماں کی بد دعاؤں نے اس کی محبت چھین لی تھی اب اُسے اماں سے بدلا لینا تھا۔۔۔۔پر کیسے؟؟ یہی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
”اچھا ایسا کیا کرتی ہو تم؟؟“ سوال پہ سوال۔ وہ انگریز پاگل تھا فجر کو تو کم از کم یہی لگا۔ اور انسانوں سے اُکتایا ولیم ایک اجنبی سے یوں بات کر رہا تھا اگر اسکے بہن بھائی دیکھ لیتے تو ضرور بےہوش ہوجاتے۔
”کال سینٹر میں جاب کرتی ہوں۔۔۔“ وہ ہولے سے بولی۔
”او مائے گاڈ۔۔۔“ ولیم کو تو جیسے کرنٹ لگا۔
”تو وہ تم لوگ ہو؟؟“ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔ جیسے کوئی معمہ حل ہوگیا ہو۔ گہرا راز ہاتھ لگ گیا ہو۔
”تم لوگ ہو وہ جو ہمارے ساتھ
Scam
کرتے ہو؟؟“ وہ گہرے صدمے سے بولا یوں جیسے یقین کرنا مشکل ہو۔ فجر کے ہونٹ بھنچ گئے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی ہوگئیں وہ اسے گھور رہی تھی اور اگلے ہی پل وہ حلق کے بل چلائی۔
”اور تم لوگ جو پوری دنیا کے ساتھ سالوں سے کرتے آرہے ہو وہ کیا ہے؟؟“ ولیم کو لگا کم از کم وہ اپنا بیگ اُسکے سر پر دے مارے گی یا اُسکا سر زمین میں۔۔۔ بے ساختہ اُسکے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا جسے وہ چھپا گیا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ بےوقوف لڑکی خودکشی کو ذہن سے نکال دے۔ وہ اُسکا ذہن بھٹکا رہا تھا۔
کچھ پل کی خاموشی چھا گئی وہ نہیں جانتا تھا کیا جواب دے۔ پر اسے وہاں بیٹھنا اچھا لگا۔ وہ جان گیا تھا وہ بیوٹی ان وائٹ بس دیکھنے میں معصوم تھی۔ وہ شاید کسی ایک لیے ہی نرم تھی ورنہ باقیوں کو تو وہ شاید گھاس بھی نہیں ڈالتی ہوگی۔ باقیوں کے لیے یقیناً وہ ڈائن ہوگی۔
”کچھ سال بعد جب تمہاری شادی ہو جائے گی جب تم اپنے ہسبنڈ اور بچوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار رہی ہوگی تب تمہیں اس خودکشی کا خیال آئے گا اور تم خود پر ہنس دو گی۔۔۔“
وہ سنجیدہ تھا۔ فجر کا دل پھر سے تڑپ اٹھا۔ شادی کرنی ہوتی تو ارسل ہی کرلیتا اور اب وہ کس پر بھروسہ کرے گی؟؟ کسی پر نہیں کسی بھی مرد پر نہیں۔ پر اماں کا کیا؟؟ اس نے اپنی ضد پوری کرلی تھی اور اب اماں بلقیس کے لڑکے سے اسکی شادی کی ضد لگا کر بیٹھی تھی اور پوری کیے بنا سکون سے نہ بیٹھتی۔ ساری کوششوں کے باوجود ارسل جا چکا تھا۔ آنکھوں میں آنسوں پھر سے بھرنے لگے۔ خودکشی کی کوشش کے باوجود وہ بچ گئی تھی۔ اب باقی کیا بچتا تھا؟؟
اماں سے بدلا۔ بس اب یہی باقی تھا۔ یہ تو طے تھا وہ کسی بلقیس کے لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی تھی ہرگز نہیں۔۔۔ تو پھر ایسا کیا کرتی کہ اماں ویسے ہی ٹوٹ جاتی جیسے وہ ٹوٹی تھی۔ ایسا کیا کرتی کہ اسے کبھی کسی سے شادی نہ کرنی پڑتی؟؟
وہ سوچ رہی تھی اور پھر ایک جھماکہ سا ہوا۔ سنسناتی ہوا نے ماضی کے پنّے تیزی سے پلٹے۔
”اماں مجھے فیشن ڈیزائنر بننا ہے۔ باہر پڑھنے جانا ہے۔ اپنا نام بنانا ہے۔۔“
”ہاں جیسے اورنگزیب کی بیٹی گئی تھی اور پھر وہیں کسی انگریز سے شادی کرلی۔۔۔“ اماں کا جملہ سماعت سے ٹکرایا۔ اورنگزیب کون تھا وہ نہیں جانتی تھی پر اُسکی بیٹی سے اماں کو شدید نفرت تھی۔ وہ اکثر اُسکا ذکر برے لفظوں میں کرتی تھی۔
فجر آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ اسے بدلا لینے کی ایک کڑی مل گئی تھی۔
”اپنی زندگی آزادی سے جیو جب تک کوئی اچھا لڑکا تمہیں مل نہیں جاتا پھر اُس سے شادی کرلینا۔۔۔“
اس نے گردن موڑ کر دائیں جانب بیٹھے ولیم کو دیکھا وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
”مجھ سے شادی کون کرے گا؟؟“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔ ولیم نے اُسے دیکھا۔ اپنی کتھئی آنکھوں سے۔۔۔۔
فجر کا چہرہ روشن تھا۔ بالوں کی چند گیلی لٹیں دونوں جانب چہرے سے چپکی ہوئی تھیں۔ خوبصورت ہونٹ نیلے پڑگئے تھے، آنکھیں روشن تھیں اور اسکی ٹھوڑی پر چمکتا وہ تل۔۔۔۔ "Breathtaking" ہولے سے بڑبڑایا۔ یہ انگریز تعریف کے معاملے میں ذرا کنجوسی نہیں کرتے۔
دل بلاوجہ ہی گدگدایا اور وہ دل کو گالیاں دیتے چہرے کا رخ موڑ گیا۔
”کوئی بھی کرلے گا۔۔۔“ وہ اُسے breathtaking کہہ رہا تھا جسکا نام تک نہیں جانتا تھا۔
"Will You??"
اس بار وہ جھٹکے سے مڑا۔ فجر اپنی چمکتی آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر حد درجہ سنجیدگی تھی۔
وہ حیرت سے ساکت ہوا۔ کم از کم اُسے اپنی پوری زندگی میں یہ توقع نہیں کی ہوگی کہ کوئی لڑکی اسے یوں پرپوز کرے گی۔
”کیا تم مجھ سے شادی کرسکتے ہو؟؟“ واضح الفاظ میں پوچھا گیا۔ وہ ناں کہنا چاہتا تھا وہ اٹھ کر بھاگ جانا چاہتا تھا وہ اس پر دل کھول کر ہنسنا چاہتا تھا پر۔۔۔۔۔۔ کئی گڈمد جملے اُسکی سماعت سے ٹکرانے لگے۔ ہوا کے تھپیڑوں نے اسے بھی پیچھے دھکیلا۔
”بس کچھ وقت کے لیے۔۔“ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”دفع ہوجاؤ یہاں سے کبھی پلٹ کر نہ آنا۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔۔۔“
ولیم نے سانس لینے کی کوشش کی۔ دم سینے میں ہی گھٹنے لگا۔
”وہ تمہارا ملک تھا جہاں میری بیٹی نے تمہارے باپ سے شادی کرلی تھی ایک عیسائی سے۔ تم یہاں کرکے دکھاؤ کسی مسلمان سے شادی۔۔۔۔“ کتنی تضحیک تھی۔ نفرت ہی نفرت تھی۔
ہارن بجاتی ایک گاڑی گزری اور وہ حال میں لوٹ آیا۔ ابلیس کے پروانے دونوں کی سماعت میں بدلے کی پھونک مار چکے تھے۔
”ولیم تم نے کسی مسلمان لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔“ مختلف لوگ، مختلف آوازیں پر نفرت ایک جیسی تھی۔
وہ دونوں زخمی تھے۔ دونوں اپنے اپنے ماں باپ سے بدلا چاہتے تھے اور بدلے کی اس آگ میں کودنے سے ذرا دریخ نہیں کرنے والے تھے۔ دونوں نے اپنا مطلب دیکھا۔
”ہاں میں تم سے شادی کرسکتا ہوں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔۔“ ٹھنڈے لہجے میں کہا گیا۔ فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ دونوں اپنی دماغ میں چلتی جنگ لڑ رہے تھے۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
William Wali All Previous Episodes
👉Episode 4(part 02): Click Here
👉Episode 4(part 01): Click Here
👉Episode 3(part 02): Click Here
👉Episode 3(part 01): Click Here
👉Episode 2: Click Here
👉Episode 1: Click Here

Comments

  1. speechless 😶....u r such a wonderful writer...Allah bless you...

    ReplyDelete
  2. Kis qader deeply likha barish ki awaz ka record karna kainaat ki her awaz ko record karna sound different story aagy ja kar aik zabardast shakar hogi

    ReplyDelete
  3. Mein apny paper ki preparation chor kr episode parh rahe hon

    ReplyDelete
  4. YouTube par novel q nahi deti

    ReplyDelete
  5. أپ کے ناول بہت دبردست ہوتے ہیں
    خاص طور پر ماثیل
    ♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

William Wali by Noor Rajput - Episode 1

William Wali Novel episode 4 - part 01